Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿125﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے ۔
ادع الى سبيل ربك بالحكمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالتي هي احسن ان ربك هو اعلم بمن ضل عن سبيله و هو اعلم بالمهتدين
Invite to the way of your Lord with wisdom and good instruction, and argue with them in a way that is best. Indeed, your Lord is most knowing of who has strayed from His way, and He is most knowing of who is [rightly] guided.
Apney rab ki raah ki taraf logon ko hikmat aur behtareen naseehat kay sath bulaiye aur unn say behtareen teriqay say guftugoo kijiye yaqeenan aap ka rab apni raah say behakney walon ko bhi bakhoobi janta hai aur woh raah yafta logon say bhi poora waqif hai.
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ، اور ( اگر بحث کی نوبت آئے تو ) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو ۔ یقینا تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ، اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو راہ راست پر قائم ہیں ۔
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ ( ف۲۸۳ ) پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ( ف۲۸٤ ) اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو ( ف۲۸۵ ) بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو ،
اے نبی ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ، 122 اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو ۔ 123 تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے ۔
۔ ( اے رسولِ معظّم! ) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث ( بھی ) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ، بیشک آپ کا رب اس شخص کو ( بھی ) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو ( بھی ) خوب جانتا ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :122 یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں ۔ ایک حکمت ۔ دوسرے عمدہ نصیحت ۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے ، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر ، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے ۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے ، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے ، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے ، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں ۔ عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفاء کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی ا جائے ۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے ۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو ۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے ۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :123 یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو ۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں ۔ اس کا مقصود حریف مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو ۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو ۔ اعلی درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو ۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے ۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دور نہ نکل جائے ۔
حکمت سے مراد کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں ۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں ۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ڰ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـهُنَا وَاِلٰــهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ 46؀ ) 29- العنكبوت:46 ) اہل کتاب سے مناظرے مجادلے کا بہترین طریقہ ہی برتا کرو الخ ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا ۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا کہ اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے ۔ گمراہ اور ہدایت یاب سب اللہ کے علم میں ہیں ۔ شقی و سعید سب اس پر واضح ہیں ۔ وہاں لکھے جا چکے ہیں اور تمام کاموں کے انجام سے فراغت ہو چکی ہے ۔ آپ تو اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہیں لیکن نہ ماننے والوں کے پیچھے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔ آپ ہدایت کے ذمے دار نہیں آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں ، آپ پر پیغام کا پہنچا دینا فرض ہے ۔ حساب ہم آپ لیں گے ۔ ہدایت آپ کے بس کی چیز نہیں کہ جسے محبوب سمجھیں ، ہدایت عطا کر دیں لوگوں کی ہدایت کے ذمے دار آپ نہیں یہ اللہ کے قبضے اور اس کے ہاتھ کی چیز ہے ۔