Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ‏ ﴿1﴾
پاک ہے وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
سبحن الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصا الذي بركنا حوله لنريه من ايتنا انه هو السميع البصير
Exalted is He who took His Servant by night from al-Masjid al-Haram to al-Masjid al- Aqsa, whose surroundings We have blessed, to show him of Our signs. Indeed, He is the Hearing, the Seeing.
Pak hai woh Allah Taalaa jo apney bandey ko raat hi raat mein masjid-e-haram say masjid-e-aqsa tak ley gaya jiss kay aas pass hum ney barkat dey rakhi hai iss liye kay ussay apni qudrat kay baaz namoney deikhayen yaqeenan Allah Taalaa hi khoob sunnay dekhney wala hai.
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ ( ١ ) بیشک وہ ہر بات سننے والی ، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے ۔
پاکی ہے اسے ( ف۲ ) جو اپنے بندے ( ف۳ ) کو ، راتوں رات لے گیا ( ف٤ ) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ( ف۵ ) جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی ( ف٦ ) کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے ،
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے ، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے ۔ حقیقت 1 میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ۔
وہ ذات ( ہر نقص اور کمزوری سے ) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے ( محبوب اور مقرّب ) بندے کو مسجدِ حرام سے ( اس ) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس ( بندۂ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :1 یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحا ”معراج“ اور ”اسراء“ کے نام سے مشہور ہے ۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں ۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت حذیفہ بن یمان ، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں ۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام ( یعنی بیت اللہ ) سے مسجد اقصٰی ( یعنی بیت المقدس ) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا ۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے ۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصی تک براق پر لے گئے ۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی ۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا ۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے ۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا ۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے ۔ حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں ، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا ۔ تا ہم اگر کوئی شخص ان تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے ۔ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں ؟ اور آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا ؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں ۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا ۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا ، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا ۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ”ایک رات اپنے بندے کو لے گیا“جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا ۔ اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا ، تو آخر ان دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور ناممکن کی بحث تو صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو ۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا ، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو ۔ اس کے علاسہ جو وسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالی کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے ، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقام خاص تک لے جایا جاتا ؟ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد ، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟ لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں ۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے ۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود و سائط اختیار کرتا ہے ۔ مثلا جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سے ، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے ۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے ، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے ۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، مگر بندے کو ہوتی ہے ۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے ، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے ۔ ورنہ اس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یا گیا تھا ۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا ۔ یا زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں ۔ اسی طرح برے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں ۔ اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سےہر ایک کو اللہ تعالی نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوت سموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے ، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے ۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے ، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا ۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں ، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں ۔
سر گزشت معراج کا تسلسل پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا ۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ عیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا ۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو ۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غرب والی بھی مروی ہے ، اس میں ہے کہ جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کر دیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی ۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے ۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہو جاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہو جایا کرتے تھے ۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بد مزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے ۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں ۔ پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا ( وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا 86؀ ) 7- الاعراف:86 ) یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لئے نہ بیٹھا کرو ۔ الخ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے ۔ پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہرگز ادار نہیں کر سکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے رہا ہے ۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ادھر کٹے ، ادھر درست ہو گئے ، پھر کٹ گئے ، یہی حال برابر جاری ہے ۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں ۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جا سکتا تھا ۔ پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر ۔ میرے بالا خانے ، ریشم ، موتی ، مونگے ، سونا ، چاندی ، جام ، کٹورے اور پانی ، دودھ ، شراب وغیر وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے ۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے ۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں ، جو مجھ پر توکل کرتا ہے میں اسے کفایت کرتا ہوں وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں ، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں ، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مومن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے ۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہو گئی ۔ پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانگ مکروہ آوازیں آ رہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر ، میرے شعلے اور گرمائی ، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی ۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں ، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں ۔ پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسے فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے ، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنا دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو ، آل فرعون کو ہلاک کیا ، ۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی ۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کر دیا پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا ۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کر دیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیر بناتے تھے ۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا ۔ ہر چیز میں مجھے فضیلت دی ، انسانوں کے ، جنوں کے ، پرندوں کے لشکر میرں ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا ۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال حضرت آدم علیہ السلام کی سی کی ۔ جسے مٹی سے پیداکر کے کہہ دیا تھا کہ ہو جا اور وہ ہو گئے تھے اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الہٰی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا ۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کر دیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہو جاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کر دیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا ، اب جناب رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کرلیں اب میں کرتا ہوں ۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا ۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اسے بہترین امت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا ۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کر دیا مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہیں ۔ امام ابو جعفر رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہو گی ، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے ۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کر دیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کر دیا کہ میں شکم سیر ہو چکا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت پر حرام کر دی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے ۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا ۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آ رہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آ رہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں میں نے کہا جبرائیل علیہ السلام یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا ۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰی بن زکریا علیہما السلام ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں ۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر ۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں ۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئے ، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی امت ہے ۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہو گئے ۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہو گئے ۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہو گئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا ۔ اول نہر اللہ کی رحمت ہے ، دوسری نعمت ہے ، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے ۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بےنشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا ۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپا لیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتین کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا ، موسیٰ علیہ السلام سے تونے باتیں کیں ، داؤد علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کر دیا ، سلیمان علیہ السلام کو تو نے بادشاہت دی ، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو ۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، تیرا سینہ کھول دیا ہے ، تیرا بوجھ اتار دیا ہے ، تیرا ذکر بلند کر دیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے ۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے ۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے ، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے ۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں ۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے ۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورۃ بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے ۔ اسلام ، ہجرت ، جہاد ، نماز ، صدقہ ، رمضان کے روزے ، نیکی کا حکم ، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی ۔ جامع باتیں دیں ۔ تمام لوکوں کی طرف خوشخبری دی نے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بینائی گئی ۔ پھر آپ پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے ۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ بہت ہی خوش ہوئے ۔ جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر ۔ اور کتاب کی ایس حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت ( سبحان الذی ) کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے ۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں آپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہو جانے کا واقعہ بھی ہے ، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھڈ کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا ۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتدء آپ سے سلام کیا ۔ بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہو گئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی ۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکے شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم ۔ اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنئے ۔ بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور تصدیق کرنے والے تھے ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے ۔ خود حضرت ام ہانی سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر آرام فرما تھے ۔ آپ بھی سو گئے اور ہم سب بھی ۔ صبح سے کجھ ہی پہلے ہم نے حضور علیہ السلام کو جگایا ۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی ۔ ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابو یعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے ۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہر چند تلاش کی لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھایا وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کو دیکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں ۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی ۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی ۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں ۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ کی بے ادبی کریں گے ۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں ۔ جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہو گیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے ۔ ایک شخص نے کہا کیوں حضرت ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا ۔ جسے میں نے بھی پیا ۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ کے سامنے کر دیا آپ نے ساری گنتی بھی بتا دی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے ۔ چنانچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آ گیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہو گیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہو گیا تھا ۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کپ بھی تھا ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا ۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا ۔ فصل ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں ۔ کم از کم اتتنا تو ضرور معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکے شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا ۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے ۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں ۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء علیہم السلام کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ وافعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا ۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکے سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک ۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے ۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے ۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے ۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے ۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے ۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی ۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء علیہم السلام سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ علیہ السلام سے اور ساتوں میں خلیل اللہ علیہ السلام سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام ۔ یہاں تک کہ آپ مستوی میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں ۔ سدرۃالمنتہی کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی ۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے ۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے ۔ وہیں آپ نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا ۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمانی کعبہ ہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی ۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی ، یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کر دی ۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی ۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء علیہم السلام بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہو گیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو ۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی ۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے ۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں امامت کرائی ۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی ۔ جب یہ ہو چکا اور آپ پر اور آپ کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہو چکا ، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی ۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ واپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو ، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم ۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے ۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں ۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے ۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے ۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے ۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں ۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کر چکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ بعبدہ پر غور کیجئے ۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے ۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا ۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60۝ۧ ) 17- الإسراء:60 ) میں فرمایا گیا ہے ۔ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا ( بخاری ) خود قرآن فرماتا ہے آیت ( مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى 17؀ ) 53- النجم:17 ) نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی ۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا ۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی ۔ چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا یہ قول مروی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی ۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ 60۝ۧ ) 17- الإسراء:60 ) آیت اتری ہے ۔ اور حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے ۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کر دی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ فائدہ ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا ۔ یہ گئے ، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی ۔ اسی وقت دل میں خیال آ گیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا ۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فورا ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے ۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا ۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا ۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کو اڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے ۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا ۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں ، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے ۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے ۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے ۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے ۔ فائدہ حضرت ابو الخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں معراج کی حدیث متواتر ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو ذر ، حضرت مالک بن صعصعہ ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو سعید ، حضرت ابن عباس ، حضرت شداد بن اوس ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبد الرحمن بن قرظ ، حضرت ابو حبہ ، حضرت ابو لیلی ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت جابر ، حضرت حذیفہ ، حضرت بریدہ ، حضرت ابو ایوب ، حضرت ابو امامہ ، حضرت سمرہ بن جندب ، حضرت ابو الخمراء ، حضرت صہیب رومی ، حضرت ام ہانی ، حضرت عائشہ ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر ۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نوارانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں ۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے ۔