Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِىۡ وَكِيۡلًا ؕ‏ ﴿2﴾
ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا ۔
و اتينا موسى الكتب و جعلنه هدى لبني اسراءيل الا تتخذوا من دوني وكيلا
And We gave Moses the Scripture and made it a guidance for the Children of Israel that you not take other than Me as Disposer of affairs,
Hum ney musa ko kitab di aur ussay bani israeel kay liye hidayat bana diya kay tum meray siwa kissi ko apna kaarsaaz na banana.
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے اس ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ تم میرے سوا کسی اور کو اپنا کارساز قرار نہ دینا ۔
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب ( ف۷ ) عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ ،
ہم نے اس سے پہلے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا ، 2 اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا ۔ 3
اور ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو کتاب ( تورات ) عطا کی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا ( اور انہیں حکم دیا ) کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ ٹھہراؤ
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :2 معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے ، سر سری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر سورت کے مدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے ۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالی کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آرہا ہے ۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :3 وکیل ، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار ، جس پر توکل کیا جائے ، جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں ، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے ۔
طوفان نوح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموما یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے حضرت موسیٰ کی کتاب کا نام تورات ہے ۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے ۔ پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا ۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لئے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لئے حضرت نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے ۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے الخ ۔