Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَقَضَيۡنَاۤ اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ فِى الۡكِتٰبِ لَـتُفۡسِدُنَّ فِى الۡاَرۡضِ مَرَّتَيۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿4﴾
ہم نے بنو اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے ۔
و قضينا الى بني اسراءيل في الكتب لتفسدن في الارض مرتين و لتعلن علوا كبيرا
And We conveyed to the Children of Israel in the Scripture that, "You will surely cause corruption on the earth twice, and you will surely reach [a degree of] great haughtiness.
Hum ney bano islraeel kay liye unn ki kitab mein saaf faisla ker diya tha kay tum zamin mein doobara fasad barpa kero gay aur tum bari zabardast ziyadtiyan kero gay.
اور ہم نے کتاب میں فیصلہ کر کے بنو اسرائیل کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے ، اور بڑی سرکشی کا مظاہرہ کرو گے ۔
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب ( ف۱۰ ) میں وحی بھیجی کہ ضرور تم زمین میں دوبارہ فساد مچاؤ گے ( ف۱۱ ) اور ضرور بڑا غرور کرو گے ( ف۱۲ )
پھر ہم نے اپنی کتاب 5 میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے ۔ 6
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو قطعی طور پر بتا دیا تھا کہ تم زمین میں ضرور دو مرتبہ فساد کرو گے اور ( اطاعتِ الٰہی سے ) بڑی سرکشی برتو گے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :5 کتاب سے مراد یہاں تورات نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ الکتاب کئی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :6 بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں ۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور ، یسعیاہ ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے ، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے ۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے ۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد علیہ السلام نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں: ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے ۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا ، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کر دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمراں بن گئے“ ( زبور ، باب ١۰٦ ۔ آیات۳٤ ۔ ٤١ ) اس عبارت میں ان واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے ، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے ، گویا کہ وہ ہو چکے ۔ یہ کتب آسمانی کا خاص انداز بیان ہے ۔ پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں: ” آہ ، خطاکار گروہ ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم ، بدکرداروں کی نسل ، مکار اولاد ، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا ، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے ، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“؟ ( باب١ ۔ آیت٤ ۔ ۵ ) ”وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی ، لیکن اب خونی رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی ۔ اس لیے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“ ۔ ( باب ١ ۔ آیت۲١ ۔ ۲٤ ) ”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کیسر زمین بتوں سے بھی پر ہے ۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت ، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت٦ ۔ ۷ ) ”اور خداوند فرماتا ہے ، چونکہ صہیون کی بیٹیاں ( یعنی یروشلم کی رہنے والیاں ) متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے ۔ اس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “ ۔ ( باب۳ ۔ آیت١٦ ۔ ۲٦ ) ” اب دیکھ ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب ، یعنی شاہ اسور ( اسیریا ) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا “ ۔ ( باب ۸ ۔ آیت۷ ) ”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں ، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو ، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو ۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا ، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا ، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“ ۔ ( باب ۳۰ ۔ آیت۹ ۔ ١٤ ) پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا: ” خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سےدور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا ، اور میری میراث کو مکروہ بنایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی ۔ ہاں ، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی ( یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہربت کو سجدہ کیا ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا ، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور ( جھوٹے ) نبی ، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا ، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی ، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اٹھ کر ہم کو بچا ۔ لیکن تیرے وہ بت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا ؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں ، کیونکہ اے یہوداہ! جتنےتیرے شہر میں اتنے ہی تیرےمعبود ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت۵ ۔ ۲۸ ) ”خدا وند نے مجھ سے فرمایا ، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل ( یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست ) نے کیا کیا ؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری ( یعنی بت پرستی ) کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا ۔ ( یعنی یروشلم کی یہودی ریاست ) نے یہ حال دیکھا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری ( یعنی شرک ) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا ( یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا ) تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری ( یعنی بت پرستی ) کی“ ۔ ( باب ۳ ۔ آیت٦ ۔ ۹ ) ”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو ، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تجھے کیسے معاف کروں ، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں ۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے ۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے ، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بن بنانے لگا ۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“؟ ( باب۵ ۔ آیت١ ۔ ۹ ) ”اے اسرائیل کے گھرانے! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا ۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے ۔ وہ قدیم قوم ہے ۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا ۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں ۔ وہ سب بہادر مرد ہیں ۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے ۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے ۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے ۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے تلوار سے ویران کر دیں گے“ ۔ ( باب۵ ۔ آیت١۵ ۔ ا۷ ) ”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا ۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز ، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائےگا“ ۔ ( باب۷ ۔ آیت۳۳ ۔ ۳٤ ) ”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں ۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف ، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف ، اور جو کال کےلیے ہیں وہ کال کو ، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“ ۔ ( باب ١۵ ۔ آیت۲ ۔ ۳ ) پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا: ”اے شہر ، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے ۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا ۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا ۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا ، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا ، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں ، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی ، تجھ میں انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خورای کی ، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا ، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا ؟ ہں میں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں ۔ ( باب۲۲ ۔ آیت ۳ ۔ ۱٦ ) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبردار کیا ۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اے یروشلم ! اے یرو شلم! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں ، مگر تونے نہ چاہا ، دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے ۔ ( آیت۲۷ ۔ ۳۸ ) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ( باب ۲٤ ۔ آیت۲ ) پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں ، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں ، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا: اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ ، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا ، اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو ۔
پیشین گوئی ۔ جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر قضینا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت ( وقضینا الیہ ذالک الامر ) میں یہی معنی ہیں ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بےخوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بےدریخ قتل کیا ۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بےفائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بےنیاز کر دینے والی ہے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزرا مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بید ردی سے قتل کیا ان میں کوئی بہی حافظ تورات نہ بچا ۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے ۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے ۔ آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ 46؀ ) 41- فصلت:46 ) جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بےباکی اور بےحیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، بہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الہٰی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔