Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعَاجِلَةَ عَجَّلۡنَا لَهٗ فِيۡهَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِيۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَهٗ جَهَنَّمَ‌ۚ يَصۡلٰٮهَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا‏ ﴿18﴾
جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا ( فوری فائدہ ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا ۔
من كان يريد العاجلة عجلنا له فيها ما نشاء لمن نريد ثم جعلنا له جهنم يصلىها مذموما مدحورا
Whoever should desire the immediate - We hasten for him from it what We will to whom We intend. Then We have made for him Hell, which he will [enter to] burn, censured and banished.
Jiss ka irada sirf iss jaldi wali duniya ( fori faeeda ) ka hi ho ussay hum yahan jiss qadar jiss kay liye chahayen sirdast detay hain bil aakhir uss kay liye jahannum muqarrar ker detay hain jahan woh burray halon dhutkara hua dakhil hoga.
جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتا ہے تو ہم جس کے لیے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں ، اسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں ، ( ٩ ) پھر اس کے لیے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوگا ۔
جو یہ جلدی والی چاہے ( ف٤۹ ) ہم اسے اس میں جلد دے دیں جو چاہیں جسے چاہیں ( ف۵۰ ) پھر اس کے لیے جہنم کردیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا ،
جو کوئی عاجلہ 19 کا خواہشمند ہو ، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں ، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر ۔ 20
جو کوئی صرف دنیا کی خوشحالی ( کی صورت میں اپنی محنت کا جلدی بدلہ ) چاہتا ہے تو ہم اسی دنیا میں جسے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں جلدی دے دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لئے دوزخ بنا دی ہے جس میں وہ ملامت سنتا ہوا ( رب کی رحمت سے ) دھتکارا ہوا داخل ہوگا
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :19 عاجلہ کےلغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز ۔ اور اصطلاحا قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح ” آخرت “ ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک مؤخر کر دیا گیا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :20 مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا ، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے ، اسے جو کچھ بھی ملے گا بس دنیا میں مل جائے گا ۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا ۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہوگی ، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی ، اور آخرت کی جوابدہی و ذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ الٹا جہنم کا مستحق ہوگا ۔
طالب دنیا کی چاہت کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔