Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡهُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَةٍ مِّنۡ رَّبِّكَ تَرۡجُوۡهَا فَقُلْ لَّهُمۡ قَوۡلًا مَّيۡسُوۡرًا‏ ﴿28﴾
اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں ، جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے ۔
و اما تعرضن عنهم ابتغاء رحمة من ربك ترجوها فقل لهم قولا ميسورا
And if you [must] turn away from the needy awaiting mercy from your Lord which you expect, then speak to them a gentle word.
Aur agar tujhay inn say mun pher lena paray apney rab ki iss rehmat ki justujoo mein jiss ki tu umeed rakhta hai to bhi tujhay chahiye kay umdagi aur narmi say unhen samjha dey.
اور اگر کبھی تمہیں ان ( رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں ) سے اس لیے منہ پھیرنا پڑے کہ تمہیں اللہ کی متوقع رحمت کا انتظار ہو ( ١٥ ) تو ایسے میں ان کے ساتھ نرمی سے بات کرلیا کرو ۔
اور اگر تو ان سے ( ف۷۱ ) منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ ( ف۷۲ )
﴿۵﴾ اگر ان سے ﴿یعنی حاجت مند رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں سے﴾ تمہیں کترانا ہو ، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو ، تو انہیں نرم جواب دے دو ۔ 28
اور اگر تم ( اپنی تنگ دستی کے باعث ) ان ( مستحقین ) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت ( خوش حالی ) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :28 ان تین دفعات کا منشاء یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے ، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے ۔ اجتماعی زندگی میں تعاون ، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو ۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون ، اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو ۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے ، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے ۔ معاشرہ میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو ۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے ، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے ۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگان خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو ۔ منشور اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں ، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے ، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے ، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے ، اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملا ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی ، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہوگئی ، حتی کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا ان اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے ۔