Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
ثُمَّ اَفِيۡضُوۡا مِنۡ حَيۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿199﴾
پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ تعالٰی سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
ثم افيضوا من حيث افاض الناس و استغفروا الله ان الله غفور رحيم
Then depart from the place from where [all] the people depart and ask forgiveness of Allah . Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Phir tum uss jagah loto jiss jagah sab log lot’tay hain aur Allah Taalaa say talab-e-bakshish kertay raho yaqeenan Allah Taalaa bakshney wala meharban hai.
اس کے علاوہ ( یہ بات بھی یاد رکھو کہ ) تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں ( ١٣٣ ) اور اللہ سے مغفرت مانگو ، بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے
پھر بات یہ ہے کہ اے قریشیو! تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں ( ف۳۸٤ ) اور اللہ سے معافی مانگو ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو ، 220 یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
پھر تم وہیں سے جاکر واپس آیا کرو جہاں سے ( اور ) لوگ واپس آتے ہیں اور اﷲ سے ( خوب ) بخشش طلب کرو ، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :220 “حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معروف طریقہ حج یہ تھا کہ ۹ ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْدلفہ میں ٹھیرتے تھے ۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیت قائم ہو گئی ، تو انہوں نے کہا: ہم اہل حرم ہیں ، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہل عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لیے یہ شان امتیاز قائم کی کہ مزدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔ پھر یہی امتیاز بنی خزاعہ اور بنی کنانہ اور ان دوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا ، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے ۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے ، ان کی شان بھی عام عربوں سے اونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا ۔ اسی فخر و غرور کا بت اس آیت میں توڑا گیا ہے ۔ آیت کا خطاب خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطاب عام ان سب کی طرف ہے ، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصوص کرنا چاہیں ۔ ان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اور سب لوگ جہاں تک جاتے ہیں ، انہیں کے ساتھ جاؤ ، انہیں کے ساتھ ٹھیرو ، انہیں کے ساتھ پلٹو ، اور اب تک جاہلیت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو ، اس پر اللہ سے معافی مانگو ۔
قریش سے خطاب اور معمول نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم یہاں پر خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہے تاکہ ترتیب ہو جائے ، گویا کہ عرفات میں ٹھہرنے والے کو حکم ملا کہ وہ یہاں سے مزدلفہ جائے تاکہ مشعر الحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکے ، اور یہ بھی فرما دیا کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ، جیسے کہ عام لوگ یہاں ٹھہرتے تھے البتہ قریشیوں نے فخروتکبر اور نشان امتیاز کے طور پر یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ حد حرم سے باہر نہیں جاتے تھے ، اور حرم کی آخری حد پر ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں اسی کے شہر کے رئیس ہیں اور اس کے گھر کے مجاور ہیں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں ہی رک جایا کرتے تھے اور اپنا نام حمس رکھتے تھے باقی کل عرب عرفات میں جا کر ٹھہرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے اسی لئے اسلام نے حکم دیا کہ جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں تم وہی سے لوٹا کرو ، حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد ، حضرت عطاء ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی رضی اللہ عنہم وغیرہ یہی فرماتے ہیں ، امام ابن جریر بھی اسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر اجماع بتاتے ہیں ، مسند احمد میں ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا اونٹ عرفات میں گم ہو گیا میں اسے ڈھونڈنے کے لئے نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں ٹھہرے ہوئے دیکھا کہنے لگا یہ کیا بات ہے کہ یہ حمس ہیں اور پھر یہاں حرم کے باہر آکر ٹھہرے ہیں ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ افاضہ سے مراد یہاں مزدلفہ سے رمی جمار کے لئے منی کو جاتا ہے ، واللہ اعلم ، اور الناس سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، بعض کہتے ہیں مراد امام ہے ، ابن جریر فرماتے ہیں اگر اس کے خلاف اجماع کی حجت نہ ہوتی تو یہی قول رائج رہتا ۔ پھر استغفار کا ارشاد ہوتا ہے جو عموما عبادات کے بعد فرمایا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ( مسلم ) آپ لوگوں کو سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے ( بخاری مسلم ) یہ بھی مروی ہے کہ عرفہ کے دن شام کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لئے استغفار کیا ( ابن جریر ) آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ تمام استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے دعا ( اللہم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عہدک ووعدک ما ستطعت اعوذ بک من شرماصنعت ابو ء لک بنعمتک علی وابوء بذنبی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اسے رات کے وقت پڑھ لے اگر اسی رات مر جائے گا تو قطعا جنتی ہو گا اور جو شخص اسے دن کے وقت پڑھے گا اور اسی دن مرے گا تو وہ بھی جنتی ہے ( بخاری ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی دعا سکھائے کہ میں نماز میں اسے پڑھا کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ پڑھو دعا ( اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب الا انت فاغفر لی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم ) ۔ ( بخاری ومسلم ) استغفار کے بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔