Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
 فَاِذَا قَضَيۡتُمۡ مَّنَاسِكَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰهَ كَذِكۡرِكُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ‏ ﴿200﴾
پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالٰی کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں دے ۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
فاذا قضيتم مناسككم فاذكروا الله كذكركم اباءكم او اشد ذكرا فمن الناس من يقول ربنا اتنا في الدنيا و ما له في الاخرة من خلاق
And when you have completed your rites, remember Allah like your [previous] remembrance of your fathers or with [much] greater remembrance. And among the people is he who says, "Our Lord, give us in this world," and he will have in the Hereafter no share.
Phir jab tum arkaan-e-hajj ada ker chuko to Allah Taalaa ka zikar kero jiss tarah tum apney baap dadon ka zikar kiya kertay thay bulkay iss say bhi ziyada baaz log woh bhi hain jo kehtay hain aey humaray rab! Humen duniya mein dey. Aisay logon ka aakhirat mein koi hissa nahi.
پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا اس طرح ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو ( ١٣٤ ) اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو ( دعا میں بس ) یہ کہتے ہیں کہ :‘‘ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما ’’ اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔
پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرچکو ( ف۳۸۵ ) تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے ( ف۳۸٦ ) بلکہ اس سے زیادہ اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں دے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ،
پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو ، تو جس طرح پہلے اپنے آبا واجداد کا ذکر کرتے تھے ، اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ 221 ﴿مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے ﴾ ان میں سے کوئی تو ایسا ہے ، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے ۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
پھر جب تم اپنے حج کے ارکان پورے کر چکو تو ( منیٰ میں ) اﷲ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا ( بڑے شوق سے ) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدّتِ شوق سے ( اﷲ کا ) ذکر کیا کرو ، پھر لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں ( ہی ) عطا کر دے اور ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :221 اہل عرب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں جلسے کرتے تھے ، جن میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے باپ دادا کے کارنامے فخر کے ساتھ بیان کرتے اور اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے تھے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ ان جاہلانہ باتوں کو چھوڑو ، پہلے جو وقت فضولیات میں صرف کرتے تھے اب اسے اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں صرف کرو ۔ اس ذکر سے مراد زمانہ قیام منیٰ کا ذکر ہے ۔
تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو ، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھاوہ لوگوں کے کام کاج کر دیا کرتا تھا سخاوت وشجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو ، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو ، اسی لئے او اشد پر زبر تمہیز کی بنا پر لائی گئی ہے ، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے ۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے ( او اشد قسوۃ ) میں اور ( او اشد خشیۃ ) میں اور ( او یزیدون ) میں اور ( او ادنیٰ ) میں ، ان تمام مقامات میں لفظ او ہرگز ہرگز شک کے لئے نہیں ہے بلکہ فجر عنہ کی تحقیق کے لئے ہے ، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے ، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لئے ان کی تعریفیں کی گئیں ، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کر دی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے ، اس لئے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت ، راحت ، آسانی ، تندرستی ، گھر بار ، بیوی بچے ، روزی ، علم ، عمل ، اچھی سواریاں ، نوکر چاکر ، لونڈی ، غلام ، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں اور آخر تکی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آگیا ، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلا حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ ، قاسم فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا ، بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے اس حدیث میں ہے ربنا سے پہلے اللہم بھی ہے ، حضرت قتادہ نے حضرت انس سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ نے جواب میں یہی دعا بتائی ( احمد ) حضرت انس رضی اللہ عنہ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے ، چنانچہ حضرت ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لئے دعا کریں آپ نے یہی دعا ( اللہم اٰتنا فی الدنیا ) الخ پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آگئیں ( ابن ابی حاتم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا ربنا اتنا ( آخرتک ) کیوں نہ پڑھی؟ چنانچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفا دے دی ( احمد ) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ( ابن ماجہ وغیرہ ) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے واللہ اعلم ، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے کزرو تو دعا آیت ( ربنا اتنا ) الخ پڑھا کرو ( ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آکر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کر لی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کر لوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہو جائے گا آپ نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت ( اولئک لہم نصیب ) ( مستدرک حاکم )