Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ جَعَلۡنَا بَيۡنَكَ وَبَيۡنَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ۙ‏ ﴿45﴾
تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں ۔
و اذا قرات القران جعلنا بينك و بين الذين لا يؤمنون بالاخرة حجابا مستورا
And when you recite the Qur'an, We put between you and those who do not believe in the Hereafter a concealed partition.
Tu jab quran parhta hai hum teray aur unn logon kay darmiyan jo aakhirat per yaqeen nahi rakhtay aik posheeda hijab daal detay hain.
اور ( اے پیغمبر ) جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ایک ان دیکھا پردہ حائل کردیتے ہیں ۔ ( ٢٦ )
اور اے محبوب! تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان ہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا ( ف۹۹ )
جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں ،
اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں ( تو ) ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کر دیتے ہیں
کفار کا ایک نفسیاتی تجزیہ فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں ، کوئی اثر ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا ۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے ۔ یہاں مستور ساتر کے معنی میں ہے جیسے میمون اور مشئوم معنی میں یا من اور شائم کے ہیں ۔ وہ پردے گو بظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہو جاتے ہیں ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ سورہ تبت یدا کے اترنے پر عورت ام جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لئے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذمم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے ، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں ۔ اس وقت رسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے ، کہنے لگے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی ۔ آپ نے فرمایا بےفکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لئے تلاوت قرآن شروع کر دی ۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہجو کی ہے ، آپ نے فرمایا ، نہیں ، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں ۔ اکنہ کنان کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے ، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہے تو یہ بےطرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نفور جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو واللہ اعلم ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ واحد کے ذکر سے بے ایمانوں کے دل اچاٹ ہو جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کا لا الہ الا اللہ کا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا ۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا ۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے ۔ اللہ کے ذکر سے ، اذان سے ، تلاوت قرآن سے ، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں ۔