Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّ‌ؕ وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمۡدِهٖ وَلٰـكِنۡ لَّا تَفۡقَهُوۡنَ تَسۡبِيۡحَهُمۡ‌ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيۡمًا غَفُوۡرًا‏ ﴿44﴾
ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں ۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے ۔ وہ بڑا برد بار اور بخشنے والا ہے ۔
تسبح له السموت السبع و الارض و من فيهن و ان من شيء الا يسبح بحمده و لكن لا تفقهون تسبيحهم انه كان حليما غفورا
The seven heavens and the earth and whatever is in them exalt Him. And there is not a thing except that it exalts [ Allah ] by His praise, but you do not understand their [way of] exalting. Indeed, He is ever Forbearing and Forgiving.
Saton aasman aur zamin aur jo bhi inn mein hai ussi ki tasbeeh ker rahey hain. Aisi koi cheez nahi jo ussay pakeezgi aur tareef kay sath yaad na kerti ho.haan yeh sahih hai kay tum uss ki tasbeeh samajh nahi saktay. Woh bara burbaar aur bakhshney wala hai.
ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں ، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو ۔ ( ٢٥ ) حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا بردبار ، بہت معاف کرنے والا ہے ۔
اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں ( ف۹٤ ) اور کوئی چیز نہیں ( ف۹۵ ) جو اسے سراہتی ہوتی اس کی پاکی نہ بولے ( ف۹٦ ) ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے ( ف۹۷ ) بیشک وہ حلم والا بخشنے والا ہے ( ف۹۸ )
اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ۔ 48 کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو 49 ، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے ۔ 50
ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ، اور ( جملہ کائنات میں ) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح ( کی کیفیت ) کو سمجھ نہیں سکتے ، بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :48 یعنی ساری کائنات اور اس کی ہر شئ اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے ، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :49 حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شئ نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کے عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے ، بلکہ اس کے ساتھ وہ اس کے تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے ۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہوگئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :50 یعنی اس کا علم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو ، اور اس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے ۔ نہ رزق بند کرتا ہے ، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے ، اور نہ ہر گستاخ پر فورا بجلی گرا دیتا ہے ۔ پھر یہ بھی اس کی برد باری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے ، انبیاء علیہم السلام اور مصلحین اور مبلغین کو ان کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھاتا رہتا ہے ، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کر کے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے ۔
سبحان العلی الاعلی ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت ، تسبیح ، تنزیہ ، تعظیم ، جلالت ، بزرگی ، بڑائی ، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لئے مانتے ہیں ، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے ۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے ۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے ۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے ، زمین دھنس جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے ، جبرائیل آب کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں ۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ سبحت السموات العلی من ذی المہابۃ مشفقات الذوی العلو بما علا سبحان العلی سبحانہ وتعالی مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کر رتی ہے ۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تماری زبان میں نہیں ۔ حیوانات ، نباتات ، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے ۔ ابو ذر والی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں ، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں ۔ اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں بھی ۔ یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے ۔ کچھ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں اپنی سواریوں کو نہ بنا لیا کرو ۔ سنو بہت سے سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر افضل ہوتی ہیں ۔ ( مسند احمد ) سنن نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الہٰی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے ۔ الحمد للہ کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا ناشکرا ہے ۔ اللہ اکبر زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے ، سبحان اللہ کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے ۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔ جب کوئی لا حول والا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے ۔ آپ کو غصہ آ گیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانورں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے ديئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں اور پہلے حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ کہتے رہو اس لئے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے ، دوسرا حکم میرا سبحان اللہ و بحمدہ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو ، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ اودی راوی کے ضعیف ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ستون ، درخت ، دروازوں کی چولیں ، ان کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز ، پانی کی کھڑ کھڑاہٹ یہ سب تسبیح الہٰی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورہ حج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے ۔ ، جیسے حیوانات اور نباتات ۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رحمۃ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابو یزید قاشی نے کہا کہ اے ابو سعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی ۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ، ان کے عذاب میں تخفیف رہے ( بخاری ومسلم ) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، تاخیر کرتا ہے ، ڈھیل دیتا ہے ، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ کو مہلت دیتا ہے ، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا ۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے الخ اور آیت میں ہے کہ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخرش پکڑ لیا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ 45؀ ) 22- الحج:45 ) ہاں جو گناہوں سے رک جائے ، ان سے ہٹ جائے ، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے ۔ جیسے آیت قرآن میں ہے جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے ؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا ۔ سورہ فاطر کے آخر کی آیتوں میں یہی بیان ہے ۔