Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِى الۡبَحۡرِ ضَلَّ مَنۡ تَدۡعُوۡنَ اِلَّاۤ اِيَّاهُ‌ ۚ فَلَمَّا نَجّٰٮكُمۡ اِلَى الۡبَرِّ اَعۡرَضۡتُمۡ‌ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ كَفُوۡرًا‏ ﴿67﴾
اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
و اذا مسكم الضر في البحر ضل من تدعون الا اياه فلما نجىكم الى البر اعرضتم و كان الانسان كفورا
And when adversity touches you at sea, lost are [all] those you invoke except for Him. But when He delivers you to the land, you turn away [from Him]. And ever is man ungrateful.
Aur samandaron mein musibat phonchtay hi jinhen tum pukartay thay sab gumm hojatay hain sirf wohi Allah baqi reh jata hai. Phir jab woh tumhen khushki ki taraf bacha laata hai to tum mun pher letay ho aur insan bara hi na shukra hai.
اور جب سمندر میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جن ( دیوتاؤں ) کو تم پکارا کرتے ہو ، وہ سب غائب ہوجاتے ہیں ۔ بس اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے ۔ پھر جب اللہ تمہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو تم منہ موڑ لیتے ہو ۔ اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے ( ف۱٤۷ ) تو اس کے سوا جنہیں پوجتے ہیں سب گم ہوجاتے ہیں ( ف۱٤۸ ) پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہیں ( ف۱٤۹ ) اور انسان بڑا ناشکرا ہے ،
جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں84 ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے ۔
اور جب سمندر میں تمہیں کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ ( سب بت تمہارے ذہنوں سے ) گم ہو جاتے ہیں جن کی تم پرستش کرتے رہتے ہو سوائے اسی ( اﷲ ) کے ( جسے تم اس وقت یاد کرتے ہو ) ، پھر جب وہ ( اﷲ ) تمہیں بچا کر خشکی کی طرف لے جاتا ہے ( تو پھر اس سے ) رُوگردانی کرنے لگتے ہو ، اور انسان بڑا ناشکرا واقع ہوا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :84 یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی ، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے ۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا ؟
مصیبت ختم ہوتے ہی شرک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابو جہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا اتفاقا کشتی طوفان میں پھنس گئی ، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے ، اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے ، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے گا ۔ اسی کو پکارو ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہ کام آ سکتا ہے ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آ سکتا ہے ۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقینا وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی خدمت میں حاصر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو لیکن جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو ۔ انسان ہے ہی ایسا ناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے ۔