Tera perwerdigar woh hai jo tumharay liye darya mein kashtiyan chalata hai takay tum uss ka fazal talash kero. Won tumharay upper boht hi meharbaan hai.
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر ( اور دریا ) میں تمہارے لئے ( جہاز اور ) کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم ( اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ ) اس کا فضل ( یعنی رزق ) تلاش کرو ، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :82
اوپر کے سلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابلیس اول روز آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے ۔ اس خطرے سے اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل ( مدار توکل ) بنائے ۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا ، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں ۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے ۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :83
یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں ۔
آسانیاں ہی آسانیاں
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بناتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی آسانی اور سہولت کے لئے اور ان کی تجارت و سفر کے لئے دریاؤں میں کشتیاں چلا دی ہیں ، اس کے فضل و کرم لطف و رحم کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ تم دور دراز ملکوں میں جا آ سکتے ہو اور خاص فضل یعنی اپنی روزیاں حاصل کر سکتے ہو ۔