Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلًا‏ ﴿70﴾
یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔
و لقد كرمنا بني ادم و حملنهم في البر و البحر و رزقنهم من الطيبت و فضلنهم على كثير ممن خلقنا تفضيلا
And We have certainly honored the children of Adam and carried them on the land and sea and provided for them of the good things and preferred them over much of what We have created, with [definite] preference.
Yaqeenan hum ney aulad-e-adam ko bari izzat di aur unhen khuski aur tari ki sawariyan din aur unhen pakeeza cheezon ki roziyan din aur apni boht si makhlooq per unhen fazilat ata farmaee.
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے ، اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں ، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے ، اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے ۔
اور بیشک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ( ف۱۵۵ ) اور ان کی خشکی اور تری میں ( ف۱۵٦ ) سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں ( ف۱۵۷ ) اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ( ف۱۵۸ )
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی ۔ 85 ؏ ۷
اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری ( یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں ) میں ( مختلف سواریوں پر ) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ ایک بالکل کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نوع انسانی کو زمین اور اس کی اشیاء پر یہ اقتدار کسی جن یا فرشتے یا سیارے نے نہیں عطا کیا ہے ، نہ کسی ولی یا نبی نے اپنی نوع کو یہ اقتدار دلوایا ہے ۔ یقینا یہ اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے ۔ پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس مرتبے پر فائز ہو کر اللہ کے بجائے اس کی مخلوق کے آگے جھکے ۔
انسان پر اللہ کے انعامات سب سے اچھی پیدائش انسان کی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ Ć۝ۡ ) 95- التين:4 ) ہم نے انسان کو بہترین مسافت پر پیدا کیا ہے ۔ وہ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہو کر صحیح چال چلتا ہے ، اپنے ہاتھوں سے تمیز کے ساتھ اپنی غذا کھاتا ہے اور حیوانات ہاتھ پاؤں سے چلتے ہیں منہ سے چارہ چگتے ہیں ۔ پھر اسے سمجھ بوجھ دی ہے جس سے نفع نقصان بھلائی برائی سوچتا ہے ۔ دینی دنیوی فائدہ معلوم کر لیتا ہے ۔ اس کی سواری کے لئے خشکی میں جانور چوپائے گھوڑے خچر اونٹ وغیرہ ۔ اور تری کے سفر کے لئے اسے کشتیاں بنانی سکھا دیں ۔ اسے بہترین ، خوشگوار اور خوش ذائقہ کھانے پینے کی چیزیں دیں ۔ کھیتیاں ہیں ، پھل ہیں ، گوشت ہیں ، دودھ ہیں اور بہترین بہت سی ذائقے دار لذیذ مزیدار چیزیں ۔ پھر عمدہ مکانات رہنے کو ، اچھے خوشنما لباس پہننے کو ، قسم قسم کے ، رنگ برنگ کے ، یہاں کی چیزیں یہاں لے جانے لے آنے کے اسباب اس کے لئے مہیا کر دئے اور مخلوق میں سے عموما ہر ایک پر اسے برتری بخشی ۔ اس آیت کریمہ سے امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے ۔ حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں کہ فرشتوں نے کہا اے اللہ تو نے اولاد آدم کو دنیا دے رکھی ہے کہ وہ کھاتے پیتے ہیں اور موج مزے کر رہے ہیں تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما کیونکہ ہم اس دنیا سے محروم ہیں ۔ اس کے جواب میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کے برابر میں ہرگز نہ کروں گا جسے میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے ۔ یہ روایت مرسل ہے ۔ لیکن اور سند سے متصل بھی مروی ہے ابن عساکر میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی تونے پیدا کیا اور بنو آدم کا خالق بھی تو ہی ہے انہیں تو کھانا پینا دے رہا ، کپڑے لتے وہ پہنتے ہیں ، نکاح شادیاں وہ کرتے ہیں ، سورایاں ان کے لے ہیں ، راحت و آرام انہیں حاصل ہے ، ان میں سے کسی چیز کے حصے دار ہم نہیں ۔ خیر یہ اگر دنیا میں ان کے لئے ہے تو یہ چیزیں آخرت میں تو ہمارے لئے کر دے ۔ اس کے جواب میں جناب باری تعالیٰ نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح جس میں میں نے پھونکی ہے اس میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہہ دیا کہ ہو جاؤ وہ ہو گیا ۔ طبرانی میں ہے قیامت کے دن ابن آدم سے زیادہ بزرگ اللہ کے ہاں کوئی نہ ہو گا ۔ پوچھا گیا کہ فرشتے بھی نہیں ؟ فرمایا فرشتے بھی نہیں وہ تو مجبور ہیں جیسے سورج چاند ۔ یہ روایت بہت ہی غریب ہے ۔