Then [if you had], We would have made you taste double [punishment in] life and double [after] death. Then you would not find for yourself against Us a helper.
لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا ، پھر ہمارےمقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے ۔ 88
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :88
اللہ تعالی اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرماتا ہے ۔ ایک یہ کہ اگر تم حق کو حق جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتہ کر لیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور تم سے خوش ہو جاتی ، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا اور تمہیں دنیا و آخرت ، دونوں میں دہری سزا دی جاتی ۔ دوسرے یہ کہ انسان خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ، خود اپنے بل بوتے پر باطل کے ان طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شامل حال نہ ہو ۔ یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر ثبات تھا جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حق و صداقت کے مؤقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہے اور کوئی سیلاب بلا آپ کو بال برابر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا ۔