Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَقَالُوۡا لَنۡ نُّـؤۡمِنَ لَـكَ حَتّٰى تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ يَنۡۢبُوۡعًا ۙ‏ ﴿90﴾
انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تا وقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں ۔
و قالوا لن نؤمن لك حتى تفجر لنا من الارض ينبوعا
And they say, "We will not believe you until you break open for us from the ground a spring.
Enhon ney kaha hum aap per hergiz eman laney kay nahi ta-waqt-e-kay aap humaray liye zamin say koi chashma jari na ker den.
اور کہتے ہیں کہ : ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ نہ نکال دو ۔
اور بولے کہ ہم تم پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ بہا دو ( ف۱۹٤ )
اور انہوں نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے ۔
اور وہ ( کفّارِ مکّہ ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں
قریش کے امراء کی آخری کوشش ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے جو بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابو البحتری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسعد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے ، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے بھئی کسی کو بھیج کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلوا لو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کر لو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں اس لئے آپ فورا ہی تشریف لائے ۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپ کو بلوایا ہے واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہو گا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے ، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیئجے اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں ۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے ، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفا ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لئے جائیں ۔ یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنا دوں اور ڈرا دھمکا دوں ۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے ، تمہاری سچی خیر خواہی کی ، تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں جہان نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نامنظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے ( او کماقال ) اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں ، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں ، ہم سے پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے ، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے ۔ اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں ۔ میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لئے آیا ہوں ۔ تم قبول کر لو ، دونوں جہان میں خوش رہو گے ۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا ۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ بھی نہ سہی لیجئے ہم خود آپ کے لئے ہی تجویز کرتے ہیں آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لئے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے ۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ چاہے نہ کرے ۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں ۔ ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کر لی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر مجلس برخاست ہوئی ۔ عبداللہ بن ابی ، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آب کی پھوپھی حضرت عاتکہ بن عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے یہ کیا اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے ۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپنے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لئے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتاچنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت ( وما منعنا ان نرسل بالایات ) الخ میں اور آیت ( وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا Ċ۝ ) 25- الفرقان:7 ) میں بھڈ ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے ۔ ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکارنا جہنم بنا رکھاہے ۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے ۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے ۔ جیسے فرمان ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ ) 10- یونس:96 ) یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کرلیں ۔ ولو اننا الخ میں فرمایا کہ اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کرلیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الہٰی ایمان لانے کے نہیں ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں ۔ اپنے لئیے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا اچھا آپ ہی کے لئے باغات اور نہریں ہو جائیں ۔ پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیئجے چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہم پر آسمان سے پتھر برسا ۔ الخ ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا ۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ العالمین اور نبی التوبۃ تھے آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کرلیں ، توحید اختیار کرلیں اور شرک چھوڑ دیں ۔ آپ کی یہ آرزو پوری ہوئی ، عذاب نہ اترا ۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی یہاں تک کہ عبداللہ بن امیہ جس نے آخر میں حضرت کے ساتھ جا کر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ زخرف سے مراد سونا ہے بلکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں لفظ من ذہب ہے ۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لئے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگا کر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں میں نے اپنا فرض ادا کر دیا احکام الہٰی تمہیں پہنچا دئیے اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کی بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بطحا مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں میں تیری طرف جھکوں ، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں ۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں ، تیرا شکر بجا لاؤں ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔