Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْكَهْف نام : اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے ۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں ۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے ۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریبا ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے ۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک ، استہزاء ، اعتراضات ، الزامات ، تخویف ، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا ، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم ، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے ، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا ۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور ام طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخرکار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا ۔ سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی تھی ، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی ۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں ۔ موضوع اور مضمون : یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے ؟ ( روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے ۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے ، اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں ، اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق ۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ٦۱ ) ۔ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے ۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا ۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں ۔ مگر اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا ، بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی: ۱ ) ۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے ، اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا ۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو ، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے ۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے ۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا اسی طرح اس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو ۔ ۲ ) ۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو ۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں ۔ ۳ ) ۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی ۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا ؟ یہ کیا ہو گیا ؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے ، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے ۔ ٤ ) ۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو ، حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا ۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو ، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار ۔ اللہ کی مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی ۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا ۔ اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرح الٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں ، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو ۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو ۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا ۔
اس سورت کی فضیلت کا بیان خصوصا اس کی اور آخر کی دس آیتوں کی فضیلت کا بیان اور یہ کہ یہ سورت فتنہ دجال سے محفوظ رکھنے والی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے اس کی تلاوت شروع کی ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح کا ایک بادل نظر پڑا جس نے ان پر سایہ کر رکھا تھا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا پڑھتے رہو یہ ہے وہ سکینہ جو اللہ کی طرف سے قرآن کی تلاوت پڑ نازل ہوتا ہے ۔ بخاری میں تین آیتوں کا بیان ہے ۔ مسلم میں آخری دس آیتوں کا ذکر ہے نسائی میں دس آیتوں کو مطلق بیان کیا گیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس سورہ کہف کا اول آخر پڑھ لے اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور ہو گا اور جو اس ساری سورت کو پڑھے اسے زمین سے آسمان تک کا نور ملے گا ۔ ایک غریب سند سے ابن مردویہ میں ہے کہ جمعہ کے دن جو شخص سورہ کہف پڑھ لے اس کے پیر کے تلووں سے لے کر آسمان کی بلندی تک کا نور ملے گا جو قیامت کے دن خوب روشن ہو گا اور دوسرے جمعہ تک کے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ اس حدیث کے مرفوع ہو نے میں نظر ہے ۔ زیادہ اچھا تو اس کا موقوف ہونا ہی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھ لی اس کے پاس سے لے کر بیت اللہ شریف تک نورانیت ہو جاتی ہے ۔ مستدرک حاکم میں مرفوعا مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لئے وہ جمعہ کے درمیان تک نور کی روشنی رہتی ہے ۔ بیہقی میں ہے کہ جس نے سورہ کہف اسی طرح پڑھی جس طرح نازل ہوئی ہے اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا ۔ حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب المختارہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کر لے گا وہ آٹھ دن تک ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہے گا یہاں تک کہ اگر دجال بھی اس عرصہ میں نکلے تو وہ اس سے بھی بچا دیا جائے گا