سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :5
پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کو روئے سخن کفار کی جانب ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو ، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے ۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے ، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتا ہے ، اور کون اپنے اصل مقام ( بندگی رب ) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے ۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساط عیش الٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی ۔