Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
سَيَـقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمۡ كَلۡبُهُمۡ‌ۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَةٌ سَادِسُهُمۡ كَلۡبُهُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَيۡبِ‌ۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَةٌ وَّثَامِنُهُمۡ كَلۡبُهُمۡ‌ؕ قُلْ رَّبِّىۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِهِمۡ مَّا يَعۡلَمُهُمۡ اِلَّا قَلِيۡلٌ  فَلَا تُمَارِ فِيۡهِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا وَّلَا تَسۡتَفۡتِ فِيۡهِمۡ مِّنۡهُمۡ اَحَدًا‏ ﴿22﴾
کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا غیب کی باتوں میں اٹکل ( کے تیر تکے ) چلاتے ہیں کچھ کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے ، انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو ہی کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں ۔
سيقولون ثلثة رابعهم كلبهم و يقولون خمسة سادسهم كلبهم رجما بالغيب و يقولون سبعة و ثامنهم كلبهم قل ربي اعلم بعدتهم ما يعلمهم الا قليل فلا تمار فيهم الا مراء ظاهرا و لا تستفت فيهم منهم احدا
They will say there were three, the fourth of them being their dog; and they will say there were five, the sixth of them being their dog - guessing at the unseen; and they will say there were seven, and the eighth of them was their dog. Say, [O Muhammad], "My Lord is most knowing of their number. None knows them except a few. So do not argue about them except with an obvious argument and do not inquire about them among [the speculators] from anyone."
Kuch log to kahen gay kay ashaab-e-kahaf teen thay aut chotha unn ka kuta tha. Kuch kahen gay kay panch thay aur chata unn ka kuta tha ghaib ki baton mein atkal ( kay teer tukkay ) chalatay hain kuch kahen gay woh saat hain aur aathwaa unn ka kuta hai. Aap keh dijiye kay mera perwerdigar unn ki tadaad ko ba-khoobi jannay wala hai unhen boht hi kum log jantay hain. Pus aap inn kay muqadmay mein sirf sirsari guftugoo hi keren aur inn mein say kissi say unn kay baray mein pooch gooch bhi na keren.
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے ، اور چوتھا ان کا کتا تھا ، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے ، اور چھٹا ان کا کتا تھا ۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں ۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے ، اور آٹھواں ان کا کتا تھا ، کہہ دو کہ : میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے ۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں ۔ لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو ، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو ۔ ( ١٧ )
اب کہیں گے ( ف٤۰ ) کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں ، چھٹا ان کا کتا بےدیکھے الاؤ تکا ( تیر تکا ) بات ( ف٤۱ ) اور کچھ کہیں گے سات ہیں ( ف٤۲ ) اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے ( ف٤۳ ) انھیں نہیں جانتے مگر تھوڑے ( ف٤٤ ) تو ان کے بارے میں ( ف٤۵ ) بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی ( ف٤٦ )
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا ۔ اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا ۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں ۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا ۔ 22 کہو ، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے ۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں ۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو ، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو ۔ 23 ؏3
۔ ( اب ) کچھ لوگ کہیں گے: ( اصحابِ کہف ) تین تھے ان میں سے چوتھا ان کا کتا تھا ، اور بعض کہیں گے: پانچ تھے ان میں سے چھٹا ان کا کتا تھا ، یہ بِن دیکھے اندازے ہیں ، اور بعض کہیں گے: ( وہ ) سات تھے اور ان میں سے آٹھواں ان کا کتا تھا ۔ فرما دیجئے: میرا رب ہی ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے اور سوائے چند لوگوں کے ان ( کی صحیح تعداد ) کا علم کسی کو نہیں ، سو آپ کسی سے ان کے بارے میں بحث نہ کیا کریں سوائے اس قدر وضاحت کے جو ظاہر ہو چکی ہے اور نہ ان میں سے کسی سے ان ( اصحابِ کہف ) کے بارے میں کچھ دریافت کریں
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :22 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد ، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبۃً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں ۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے ، اور امتداد زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں ۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :23 مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے ، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے ، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس عادت جاریہ کو لوگ قانون فطرت سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالیٰ درحقیقت اس کا پابند نہیں ہے ، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے ، کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے ، اور اس کی عمر ، شکل ، صورت ، لباس ، تندرستی ، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا ، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں ۔ اصحاب کہف کو جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں ، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کردیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں ۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے ، اور ان کے نام کیا کیا تھے ، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا ، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو ، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو ، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے ۔
اصحاف کہف کی تعداد لوگ اصحاف کہف کی گنتی میں گچھ کا کچھ کہا کرتے تھے تین قسم کے لوگ تھے چوتھی گنتی بیان نہیں فرمائی ۔ دو پہلے کے اقوال کو تو ضعیف کر دیا کہ یہ اٹکل کے تکے ہیں ، بےنشانے کے پتھر ہیں ، کہ اگر کہیں لگ جائیں تو کمال نہیں نہ لگیں تو زوال نہیں ، ہاں تیسرا قول بیان فرما کر سکوت اختیار فرمایا تردید نہیں کی یعنی سات وہ آٹھواں ان کا کتا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات صحیح اور واقع میں یونہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بہتر یہی ہے کہ علم اللہ کی طرف اسے لوٹا دیا جائے ایسی باتوں میں کوئی صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے غور و خوض کرنا عبث ہے ، جس بات کا علم ہو جائے منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔ اس گنتی کا صحیح علم بہت کم لوگوں کو ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں انہیں میں سے ہوں ، میں جانتا ہوں وہ سات تھے ۔ حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور یہی ہم نے پہلے لکھا تھا ۔ ان میں سے بعض تو بہت ہی کم عمر تھے ۔ عنفوان شباب میں تھے یہ لوگ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ، روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے رہتے تھے ۔ مروی ہے کہ یہ تو نو تھے ان میں سے جو سب سے بڑے تھے ان کا نام مکسلمین تھا اسی نے بادشاہ سے باتیں کی تھیں اور اسے اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دی تھی ۔ باقی کے نام یہ ہیں فحستلمین ، تملیخ ، مطونس ، کشطونس ، بیرونس ، دنیموس ، بطونس اور قابوس ۔ ہاں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت یہی ہے کہ یہ سات شخص تھے آیت کے ظاہری الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ شعیب جبائی کہتے ہیں ان کے کتے کا نام حمران تھا لیکن ان ناموں کی صحت میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ان میں کی بہت سی چیزیں اہل کتاب سے لی ہوئی ہیں ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں یہ ایک نہایت ہی ہلکا کام ہے جس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے دریافت کیجئے ، کیونکہ عموما وہ اپنے دل سے جوڑ کر کہتے ہیں کوئی صحیح اور سچی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ، جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرمایا ہے ، یہ جھوٹ سے پاک ہے ، شک شبہ سے دور ہے ، قابل ایمان و یقین ہے ، بس یہی حق ہے اور سب سے مقدم ہے ۔