Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَكَذٰلِكَ اَعۡثَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ لِيَـعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيۡبَ فِيۡهَا ‌ۚ اِذۡ يَتَـنَازَعُوۡنَ بَيۡنَهُمۡ اَمۡرَهُمۡ‌ فَقَالُوۡا ابۡنُوۡا عَلَيۡهِمۡ بُنۡيَانًـا ‌ ؕ رَبُّهُمۡ اَعۡلَمُ بِهِمۡ‌ؕ قَالَ الَّذِيۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰٓى اَمۡرِهِمۡ لَـنَـتَّخِذَنَّ عَلَيۡهِمۡ مَّسۡجِدًا‏ ﴿21﴾
ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک و شبہ نہیں جبکہ وہ اپنے امر میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے کہنے لگے ان کے غار پر ایک عمارت بنالو اور ان کا رب ہی ان کے حال کا زیادہ عالم ہے جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنالیں گے ۔
و كذلك اعثرنا عليهم ليعلموا ان وعد الله حق و ان الساعة لا ريب فيها اذ يتنازعون بينهم امرهم فقالوا ابنوا عليهم بنيانا ربهم اعلم بهم قال الذين غلبوا على امرهم لنتخذن عليهم مسجدا
And similarly, We caused them to be found that they [who found them] would know that the promise of Allah is truth and that of the Hour there is no doubt. [That was] when they disputed among themselves about their affair and [then] said, "Construct over them a structure. Their Lord is most knowing about them." Said those who prevailed in the matter, "We will surely take [for ourselves] over them a masjid."
Hum ney iss tarah logon ko unn kay haal say aagah ker diya kay woh jaan len kay Allah ka wada bilkul sacha hai aur qayamat mein koi shuba nahi. Jabkay woh apney amar mein aapas mein ikhtilaf ker rahey thay kehney lagay inn kay ghaar per aik emaarat bana lo. Unn ka rab hi unn kay haal ka ziyada aalim hai. Jin logon ney unn kay baray mein ghalba paya woh kehney lagay kay hum to inn kay aas pass masjod bana len gay.
اور یوں ہم نے ان کی خبر لوگوں تک پہنچا دی ، ( ١٣ ) تاکہ وہ یقین سے جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، نیز یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے ، ( ١٤ ) اس میں کوئی شک نہیں ۔ ( پھر وہ وقت بھی آیا ) جب لوگ ان کے بارے میں میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، ( ١٥ ) چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان پر ایک عمارت بنا دو ۔ ان کا رب ہی ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے ۔ ( ١٦ ) ( آخر کار ) جن لوگوں کو ان کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا انہوں نے کہا کہ : ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے ۔
اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی ( ف۳۵ ) کہ لوگ جان لیں ( ف۳٦ ) کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں ، جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے ( ف۳۷ ) تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ ، ان کا رب انھیں خوب جانتا ہے ، وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے ( ف۳۸ ) قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے ( ف۳۹ )
اس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا 17 تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آکر رہے گی ۔ 18 ﴿مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی﴾ اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان ﴿اصحاب کہف﴾کے ساتھ کیا کیا جائے ۔ کچھ لوگوں نے کہا ان پر ایک دیوار چن دو ، ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے ۔ 19 مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے20 انہوں نے کہا”ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے ۔ 21
اور اس طرح ہم نے ان ( کے حال ) پر ان لوگوں کو ( جو چند صدیاں بعد کے تھے ) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے اور یہ ( بھی ) کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ جب وہ ( بستی والے ) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے ( جب اصحابِ کہف وفات پاگئے ) تو انہوں نے کہا کہ ان ( کے غار ) پر ایک عمارت ( بطور یادگار ) بنا دو ، ان کا رب ان ( کے حال ) سے خوب واقف ہے ، ان ( ایمان والوں ) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان ( کے دروازہ ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے ( تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں )
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :17 یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی ۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی ۔ زبان تہذیب ، تمدن ، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا ۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا ۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ سریانی روایت کی رو سے دکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے ۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا ۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے ۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا ۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دو سو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :18 سریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالم آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی ۔ اگر چہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے ، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا ، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقت ور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار ، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے ۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ افسس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ ( جسے صَدوقی کہا جاتا تھا ) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا ۔ یہ گروہ کتاب اللہ ( یعنی توراۃ ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے ۔ متی ، مرقس ، لوقا ، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا ، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں ( ملاحظہ ہو مری باب ۲۲ ۔ آیت ۲۳ ۔ مرقس باب ۱۲ ۔ آیت ۱۸ ۔ ۲۷ ۔ لوقاباب ۲۰ ۔ آیت ۲۷ ۔ ٤۰ ) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے ۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :19 فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا ۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو ، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :20 اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی ۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا ، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے ، اور مسیح ، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے ۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ٤۳۱ میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریم علیہا السلام کے مادر خدا ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا ۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں ۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :21 مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے ۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقبِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو ، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے ۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں : لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج ۔ ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد نسائی ۔ ابن ماجہ ) ۔ اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر ، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر ۔ الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک ( مسلم ) خبردار رہو ، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے ، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں ۔ لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآءھم مساجد ( احمد ، بخاری ، مسلم ، نَسائی ) اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر ، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ۔ اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ ( احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ) ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے ۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ نعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟ اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ ۱۸۳٤ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل ( Arundeil ) نے ایشیائے کوچک کے اکتشافات ( Discoveries in Asia Mino ) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور سات لڑکوں ( یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں ۔
دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کر دیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے ۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی ، جسم کا اعادہ نہ ہو گا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کر دی ہے اور عینی دلیل دے دی ۔ مذکور ہے کہ جب ان میں سے ایک صاحب دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں سارا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے ، بستیاں بدل چکی تھیں ، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن گزار ہے یہاں انقلاب زمانہ اور کا اور ہو چکا ہے جیسے کسی نے کہا ہے ۔ اما الدیار فانہا کدیارہم واری رجال الحی غیر رجالہ گھر گو انہیں جیسے ہیں لیکن قبیلے کے لوگ اور ہی ہیں اس نے دیکھا کہ نہ تو شہر کوئی چیز اپنے حال پر ہے ، نہ شہر کا کوئی بھی رہنے والا جان پہچان کا ہے نہ یہ کسی کو جانیں نہ انہیں اور کوئی پہچانے ۔ تمام عام خاص اور ہی ہیں ۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا ۔ دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں ۔ یہ دفعتا ہو کیا گیا ؟ ہر چند سوچتا تھا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی ۔ آخر خیال کرنے لگا کہ شاید میں مجنوں ہو گیا ہوں یا میرے حواس ٹھکانے نہیں رہے یا مجھے کوئی مرض لگ گیا ہے یا میں خواب میں ہوں ۔ لیکن فورا ہی یہ خیالات ہٹ گئے مگر کسی بات پر تسلی نہ ہو سکی اس لئے ارادہ کر لیا کہ مجھے سودا لے کر اس شہر کو جلد چھوڑ دینا چاہئے ۔ ایک دکان پر جا کر اسے دام دئیے اور سودا کھانے پینے کا طلب کیا ۔ اس نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تر تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیا ہے کب کا ہے ؟ کسی زمانے کا ہے ؟ اس نے دوسرے کو دیا اس سے کسی اور نے دیکھنے کو مانگ لیا الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ہر زبان سے یہی نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے ، اس میں سے یہ لایا ہے اس سے پوچھو یہ کہاں کا ہے ؟ کون ہے ؟ یہ سکہ کہاں سے پایا ؟ چنانچہ لوگوں نے اسے گھیر لیا مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے اور اوپر تلے ٹیڑھے ترچھے سوالات شروع کر دئے ۔ اس نے کہا میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں ، کل شام کو میں یہاں سے گیا ہوں ، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے ۔ اب تو سب نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے ۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا اس سے سوالات ہوئے اس نے تمام حال کہہ سنایا اب ایک طرف بادشاہ اور دوسرے سب لوگ متحیر ایک طرف سے خود ششدر و حیران ۔ آخر سب لوگ ان کے ساتھ ہوئے ۔ اچھا ہمیں اپنے اور ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو ۔ یہ انہیں لے کر چلے غار کے پاس پہنچ کر کہا تم ذرا ٹھیرو میں پہلے انہیں جا کر خبر کر دوں ۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بےخبری کے پردے ڈال دئے ۔ انہیں نہ معلو ہو سکا کہ وہ کہاں گیا ؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کر لیا ۔ ایک روایت یہ بھی آئی ہے کہ یہ لوگ مع بادشاہ کے گئے ، ان سے ملے ، سلام علیک ہوئی ، بغلگیر ہوئے ، یہ بادشاہ خود مسلمان تھا ۔ اس کا نام تندوسیس تھا ، اصحاب کہف ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور محبت و انسیت سے ملے جلے ، باتیں کیں ، پھر واپس جا کر اپنی اپنی جگہ لیٹے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کر لیا ، رحمہم اللہ اجمعین واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حبیب بن مسلمہ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے ، وہاں انہوں نے روم کے شہروں میں ایک غار دیکھا ، جس میں ہڈیاں تھیں ، لوگوں نے کہا یہ ہڈیاں اصحاب کہف کی ہیں ، آپ نے فرمایا تین سو سال گزر چکے کہ ان کی ہڈیاں کھوکھلی ہو کر مٹی ہو گئیں ( ابن جریر ) پس فرماتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں انوکھی طرز پر سلایا اور بالکل انوکھے طور پر جگایا ، اسی طرح بالکل نرالے طرز پر اہل شہر کو ان کے حالات سے مطلع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کے وعدوں کی حقانیت کا علم ہو جائے اور قیامت کے ہونے میں اور اس کے برحق ہونے میں انہیں کوئی شک نہ رہے ۔ اس وقت وہ آپس میں سخت مختلف تھے ، لڑ جھگڑ رہے تھے ، بعض قیامت کے قائل تھے ، بعض منکر تھے ، پس اصحاب کہف کا ظہور منکروں پر حجت اور ماننے والوں کے لئے دلیل بن گیا ۔ اب اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان کے غار کا منہ بند کر دیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ جنہیں سرداری حاصل تھی انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنا لیں گے امام ابن جریر ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسکے قائل کلمہ گو تھے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا ؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اولیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں جو انہوں نے کیا اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے ۔ اسی لئے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب حضرت دانیال کی قبر عراق میں پائی تو حکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کر دیا جائے اور جو رقعہ ملا ہے جس میں بعض لڑائیوں وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کر دیا جائے ۔