Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَقُلِ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّكُمۡ‌ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡيُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡيَكۡفُرۡ ‌ۙاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِيۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمۡ سُرَادِقُهَا‌ ؕ وَاِنۡ يَّسۡتَغِيۡثُوۡا يُغَاثُوۡا بِمَآءٍ كَالۡمُهۡلِ يَشۡوِى الۡوُجُوۡهَ‌ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ وَسَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا‏ ﴿29﴾
اور اعلان کر دے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ۔ ظالموں کے لئے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی ۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ ( دوزخ ) ہے ۔
و قل الحق من ربكم فمن شاء فليؤمن و من شاء فليكفر انا اعتدنا للظلمين نارا احاط بهم سرادقها و ان يستغيثوا يغاثوا بماء كالمهل يشوي الوجوه بس الشراب و ساءت مرتفقا
And say, "The truth is from your Lord, so whoever wills - let him believe; and whoever wills - let him disbelieve." Indeed, We have prepared for the wrongdoers a fire whose walls will surround them. And if they call for relief, they will be relieved with water like murky oil, which scalds [their] faces. Wretched is the drink, and evil is the resting place.
Aur ailaan ker dey kay yeh sirasar bar-haq quran tumharay rab ki taraf say hai. Abb jo chahaye eman laye aur jo chahaye kufur keray. Zalimon kay liye hum ney woh aag tayyar ker rakhi hai jiss ki qanaten unhen gher len gi agar woh faryad rasi chahayen gay to unn ki faryad rasi uss pani say ki jayegi jo tel ki talchat jaisa hoga jo chehray bhoon dey ga bara hi bura pani hai aur bari buri aaram gaah ( dozakh ) hai.
اور کہہ دو کہ : حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے ۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے ۔ ( ٢٣ ) ہم نے بیشک ( ایسے ) ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیرے میں لے لیں گی ، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کا جواب ایسے پانی سے دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا ، ( اور ) چہروں کو بھون کر رکھ دے گا ۔ کیسا بدترین پانی ، اور کیسی بری آرام گاہ ! ۔
اور فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے ( ف۵۹ ) تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ( ف٦۰ ) بیشک ہم نے ظالموں ( ف٦۱ ) کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انھیں گھیر لیں گی ، اور اگر ( ف٦۲ ) پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہوگی اس پانی سے کہ چرخ دے ( کھولتے ہوئے ) دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا کیا ہی برا پینا ہے ( ف٦۳ ) اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ،
صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ۔ 31 ہم نے ﴿انکار کرنے والے﴾ ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں ۔ 32 وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا 33 اور ان کا منہ بھون ڈالے گا ، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ!
اور فرما دیجئے کہ ( یہ ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے ، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے ، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے ( دوزخ کی ) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی ، اور اگر وہ ( پیاس اور تکلیف کے باعث ) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا ، کتنا برا مشروب ہے ، اور کتنی بری آرام گاہ ہے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :31 یہاں پہنچ کر صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ سنانے کے بعد یہ فقرے کس مناسبت سے ارشاد ہوئے ہیں ۔ اصحاب کہف کے جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا تھا کہ توحید پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے کس طرح اٹھ کر دو ٹوک بات کہہ دی کہ ہمارا رب تو بس وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ اور پھر کس طرح وہ اپنی گمراہ قوم سے کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم اس کے سوا کسی دوسرے الہ کو نہ پکاریں گے ، اگر ہم ایسا کریں تو بڑی بے جا بات کریں گے ۔ اور کس طرح انہوں نے اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ کر بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی سروسامان کے ایک غار میں جا پڑنا قبول کر لیا ، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ حق سے بال برابر بھی ہٹ کر اپنی قوم سے مصالحت کر لیتے ۔ پھر جب وہ بیدار ہوئے تب بھی انہیں فکر ہوئی تو اس بات کی کہ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم ہم کو اپنی ملت کی طرف پھیر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے ۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سنانا دراصل مخالفین اسلام کو مقصود ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ان مشرکین اور منکرین حق سے مصالحت قطعاً خارج از بحث ہے ۔ جو حق خدا کی طرف سے آیا ہے اسے بےکم و کاست ان کے سامنے پیش کر دو ۔ مانتے ہیں تو مانیں ، نہیں مانتے تو خود برا انجام دیکھیں گے ۔ جنہوں نے مان لیا ہے ، خواہ وہ کم سن نوجوان ہوں ، یا بے مال و زر فقیر ، یا غلام اور مزدور ، بہرحال وہی قیمتی جواہر ہیں ، انہی کو یہاں عزیز رکھا جائے گا ، اور ان کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں کی کچھ پروا نہ کی جائے گی جو دنیا کی شان و شوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں مگر ہیں خدا سے غافل اور اپنے نفس کے بندے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :32 سرادق کے اصل معنی ہیں قناتیں اور سرا پردے جو کسی خیمہ گاہ کے گرد لگائے جاتے ہیں لیکن جہنم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ سرادق سے مراد اس کے وہ بیرونی حدود ہیں جہاں تک اس کی لپیٹیں پہنچیں اور اس کی حرارت کا اثر ہو ۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے سرادق نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے ، یعنی وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عالم آخرت میں جہنم کے سرا پردے ان کو گھیر لیں گے ۔ لیکن ہم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حق سے منہ موڑنے والے ظالم یہیں سے جہنم کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :33 لغت میں مُہل کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ بعض اس کے معنی تیل کی تلچھٹ بتاتے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ لاوے کے معنی میں آتا ہے ، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں ۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں ۔
جہنم کی دیواریں جو کچھ میں اپنے رب کے پاس سے لایا ہوں وہی حق صدق اور سچائی ہے شک شبہ سے بالکل خالی ۔ اب جس کا جی چاہے مانے نہ چاہے نہ مانے ۔ نہ ماننے والوں کے لئے آگ جہنم تیار ہے ، جس کی چار دیواری کے جیل خانے میں یہ بےبس ہوں گے ۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی چار دیواری کی وسعت چالیس چالیس سال کی راہ کی ہے ( مسند احمد ) اور خود وہ دیواریں بھی آگ کی ہیں ۔ اور روایت میں ہے سمندر بھی جہنم ہے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا واللہ نہ اس میں جاؤں جب تک بھی زندہ رہوں اور نہ اس کا کوئی قطرہ مجھے پہنچے ۔ مہل کہتے ہیں غلیظ پانی کو جیسے زیتون کے تیل کی تلچھٹ اور جیسے خون اور پیپ جو بیحد گرم ہو ۔ حضرت ابن مسعود نے ایک مرتبہ سونا پگھلایا جب وہ پانی جیسا ہو گیا اور جوش مارنے لگا فرمایا مھل کی مشابہت اس میں ہے جہنم کا پانی بھی سیاہ ہے ، وہ خود بھی سیاہ ہے ، جہنمی بھی سیاہ ہیں ۔ مھل سیاہ رنگ ، بدبودار ، غلیظ گندی ، سخت گرم چیز ہے ، چہرے کے پاس جاتے ہی کھال جھلس کر اس میں آ پڑے گی ۔ قرآن میں ہے وہ پیپ پلائے جائیں گے بمشکل ان کے حلق سے اترے گی ۔ چہرے کے پاس آتے ہی کھال جل کر گر پڑے گی پیتے ہی آنتیں کٹ جائیں گی انکی ہائے وائے شور و غل پر یہ پانی انکو پینے کو دیا جائے گا ۔ بھوک کی شکایت پر زقوم کا درخت دیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اس طرح جسم چھوڑ کر اتر جائیں گی کہ ان کے پہچاننے والا ان کھالوں کو دیکھ کر بھی پہچان لے ، پھر پیاس کی شکایت پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا جو منہ کے پس پہنچتے ہی تمام گوشت کو بھون ڈالے گا ۔ ہائے کیا برا پانی ہے یہ وہ گرم پانی پلایا جائے گا ، انکا ٹھکانہ انکی منزل انکا گھر انکی آرام گاہ بھی نہایت بری ہے ۔ جیسے اور آیت میں ( اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا 66؀ ) 25- الفرقان:66 ) وہ بڑی جگہ اور بیحد کٹھن منزل ہے ۔