Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَاصۡبِرۡ نَـفۡسَكَ مَعَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ‌ وَلَا تَعۡدُ عَيۡنٰكَ عَنۡهُمۡ‌ ۚ تُرِيۡدُ زِيۡنَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَهٗ عَنۡ ذِكۡرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ وَكَانَ اَمۡرُهٗ فُرُطًا‏ ﴿28﴾
اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں ( رضا مندی چاہتے ہیں ) ، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا ۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سےغافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔
و اصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغدوة و العشي يريدون وجهه و لا تعد عينك عنهم تريد زينة الحيوة الدنيا و لا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا و اتبع هوىه و كان امره فرطا
And keep yourself patient [by being] with those who call upon their Lord in the morning and the evening, seeking His countenance. And let not your eyes pass beyond them, desiring adornments of the worldly life, and do not obey one whose heart We have made heedless of Our remembrance and who follows his desire and whose affair is ever [in] neglect.
Aur apney aap ko unhin kay sath rakha ker jo apney perwerdigar ko subha shaam pukartay hain aur ussi kay chehray kay iraday rakhtay hain ( raza mandi chahatay hain ) khabardaar! Teri nigahen unn say na hatney payen kay dunyawi zindagi kay thaath kay iraday mein lag jaa. Dekh uss ka kehna na manna jiss kay dil ko hum ney apney zikar say ghafil ker diya hai aur jo apni khuwaishon kay peechay para hua hai aur jiss ka kaam hadd say guzar chuka hai.
اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ۔ ( ٢٢ ) اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں ۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے ، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ، اور جس کا معاملہ حد سے گذر چکا ہے ۔
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں ( ف۵۸ ) اور تمہاری آنکھیں انھیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگانی کا سنگھار چاہو گے ، اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ،
اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں ، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو ۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ 28 کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو 29 جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے ۔ 30
۔ ( اے میرے بندے! ) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں ( اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں ) تیری ( محبت اور توجہ کی ) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں ، کیا تو ( ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر ) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے ، اور تو اس شخص کی اطاعت ( بھی ) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :28 ابن عباس کی روایت کے مطابق ، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ اور صہیب رضی اللہ عنہ اور عَمَّار رضی اللہ عنہ اور خَبّاب رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے غریب لوگ ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں ، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے ۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں ، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو ۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں ؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ، مگر سنانا دراصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت ، جس پر تم پھول رہے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی ۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں خلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے ۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا ۔ وہ حضرت نوح علیہ السلام سے کہتے تھے وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ ۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں اور حضرت نوح علیہ السلام کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ، میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا ، اور وَلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً ، جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو ، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے ۔ ( ہود آیات ۲۷ ۔ ۹۲ ۔ ۳۱ ۔ نیز سورہ اَنعام ، آیت ۵۲ ۔ اور سورہ الحجر ، آیت ۸۸ ) سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :29 یعنی اس کی بات نہ مانو ، اس کے آگے نہ جھکو ، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو ۔ یہاں اطاعت ، کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :30 کَانَ اَمْرُہ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے ۔ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے ۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود ناآشنا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود ناآشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مطاع بھٹکے اسی میں مطیع بھی بھٹکتا چلا جائے ۔