Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَاتۡلُ مَاۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ مِنۡ كِتَابِ رَبِّكَ ‌ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ‌ ۚ وَلَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مُلۡتَحَدًا‏ ﴿27﴾
تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا رہ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ پائے گا ۔
و اتل ما اوحي اليك من كتاب ربك لا مبدل لكلمته و لن تجد من دونه ملتحدا
And recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book of your Lord. There is no changer of His words, and never will you find in other than Him a refuge.
Teri janib jo teray rab ki kitab wahee ki gaee hai ussay parhta reh uss ki baton ko koi badalney wala nahi tu uss kay siwa hergiz hergiz koi panah ki jagah na paye ga.
اور ( اے پیغمبر ) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کے ذریعے جو کتاب بھیجی گئی ہے ، اسے پڑھ کر سنادو ۔ کوئی نہیں ہے جو اس کی باتوں کو بدل سکے ، اور اسے چھوڑ کر تمہیں ہرگز پناہ کی جگہ نہیں مل سکتی ۔ ( ٢١ )
اور تلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب ( ف۵٦ ) تمہیں وحی ہوئی اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ( ف۵۷ ) اور ہرگز تم اس کے سوا پناہ نہ پاؤ گے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 26 ، تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے ﴿جوں کا توں﴾ سنا دو ، کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے ، ﴿اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردوبدل کرو گے تو﴾ اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے ۔ 27
اور آپ وہ ( کلام ) پڑھ کر سنائیں جو آپ کے رب کی کتاب میں سے آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے ، اس کے کلام کو کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ اس کے سوا ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :26 اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :27 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا ۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بےکم و کاست پہنچا دیں ۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو ۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی ، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو ۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بات مان لیں ۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو ۔ کچھ تم ہماری مان لو ، کچھ ہم تمہاری مان لیں ۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے ۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو : وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَاائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہ ۔ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو ۔
تلاوت و تبلیغ اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے ، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے ، نہ ادھر ادھر کر سکے ، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں ، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 85؀ ) 28- القصص:85 ) یعنی اللہ تعالیٰ تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52؀ ) 6- الانعام:52 ) یعنی صبح شام یاد الہٰی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52؀ ) 6- الانعام:52 ) اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں ، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے ، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں ، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی ۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورہ کہف کی قرأت کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے ، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الہٰی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورہ حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورہ کہف کی ۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں ۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے ، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا ، جنکے بال بکھرے ہوئے تھے ، کھالیں خشک تھیں ، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا ، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں ، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں ، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں ، جو عبادت سے دور ہیں ، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں ، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا ، ان کی نعمیتں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88؀ ) 15- الحجر:88 ) ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے ۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا ، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے ۔