Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
سَلۡ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ كَمۡ اٰتَيۡنٰهُمۡ مِّنۡ اٰيَةٍۢ بَيِّنَةٍ ‌ؕ وَمَنۡ يُّبَدِّلۡ نِعۡمَةَ اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿211﴾
بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور جو شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے ( وہ جان لے ) کہ اللہ تعالٰی بھی سخت عذابوں والا ہے ۔
سل بني اسراءيل كم اتينهم من اية بينة و من يبدل نعمة الله من بعد ما جاءته فان الله شديد العقاب
Ask the Children of Israel how many a sign of evidence We have given them. And whoever exchanges the favor of Allah [for disbelief] after it has come to him - then indeed, Allah is severe in penalty.
Bani israeel say poocho to kay hum ney unhen kiss qadar roshan nishaniyan ata farameen aur jo shaks Allah Taalaa ki nematon ko apney pass phonch janey kay baad badal dalay ( woh jaan ley ) kay Allah Taalaa sakht azabon wala hai.
بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے ان کوکتنی ساری کھلی نشانیاں دی تھیں ، اور جس شخص کے پاس اللہ کی نعمت آچکی ہو ، پھر وہ اس کو بدل ڈالے ، تو ( اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ) اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے ۔
بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے کتنی روشن نشانیاں انہیں دیں ( ف٤۰۰ ) اور جو اللہ کی آئی ہوئی نعمت کو بدل دے ( ف٤۰۱ ) تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ،
بنی اسرئیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے انھیں دکھائی ہیں﴿اور پھر یہ بھی ان ہی سے پوچھ لو کہ ﴾اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اسے اللہ کیسی سخت سزا دیتا ہے ۔ 229
آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں عطا کی تھیں ، اور جو شخص اﷲ کی نعمت کو اپنے پاس آجانے کے بعد بدل ڈالے تو بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :229 اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجوہ سے کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامان عبرت و بصیرت ہے ۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے ، جس کو کتاب اور نبوت کی مشعل دے کر دنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا ، اور پھر اس نے دنیا پرستی ، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیا ۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے ، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مل سکتا ہے ، تو وہ یہی قوم ہے ۔
احسان فراموش اسرائیل اور ترغیب صدقات اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ ہاتھوں لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لئے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ جن سے میراخود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر آرے رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے؟ یہی خبر کفار وقریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابرہیم:28 ) کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے ، بلکہ ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، حالانکہ حقیق نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آجائے گی ۔ دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دے دے جسے چاہے بےحساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا ، آپ نے حضرت بلال سے فرمایا راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو ، قرآن میں ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ) 34 ۔ سبأ:39 ) تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا ، صحیح حدیث میں ہے ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ وبرباد کر ۔ ایک اور حدیث میں ہے انسان کہتا رہتا میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہو چکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا ، مسند احمد کی حدیث میں ہے دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو ، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لئے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو ۔