Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
هَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيَهُمُ اللّٰهُ فِىۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَالۡمَلٰٓٮِٕکَةُ وَقُضِىَ الۡاَمۡرُ‌ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ‏ ﴿210﴾
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالٰی ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے ، اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں ۔
هل ينظرون الا ان ياتيهم الله في ظلل من الغمام و الملىكة و قضي الامر و الى الله ترجع الامور
Do they await but that Allah should come to them in covers of clouds and the angels [as well] and the matter is [then] decided? And to Allah [all] matters are returned.
Kiya logon ko iss baat ka intizar hai kay unn kay pass khud Allah Taalaa abar kay sayebanon mein aajaye aur farishtay bhi aur kaam inteha tak phoncha diya jaye Allah hi ki taraf tamam kaam lotaye jatay hain.
یہ ( کفار ایمان لانے کے لیے ) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ خود بادل کے سائبانوں میں ان کے سامنے آموجود ہو ، اور فرشتے بھی ( اس کے ساتھ ہوں ) اور سارا معاملہ ابھی چکا دیا جائے ؟ ( ١٣٩ ) حالانکہ آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف تو لوٹ کر رہیں گے ۔
کاہے کے انتظار میں ہیں ( ف۳۹۸ ) مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے چھائے ہوئے بادلوں میں اور فرشتے اتریں ( ف۳۹۹ ) اور کام ہوچکے اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے ،
﴿ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہو ں ، تو ﴾ کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ 228 ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں ۔ ؏۲۵
کیا وہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ بادل کے سائبانوں میں اﷲ ( کا عذاب ) آجائے اور فرشتے بھی ( نیچے اتر آئیں ) اور ( سارا ) قصہ تمام ہو جائے ، تو سارے کام اﷲ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :228 یہ الفاظ قابل غور ہیں ۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں ، کتابوں کی تنزیل میں ، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے ۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا ۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو ، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے ، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا ۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے ، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو ۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے ، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے ، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں ، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے ، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے ، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی ۔ جب وہ ساعت آگئی ، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش ، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے ۔
تذکرہ شفاعت اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا ) 89 ۔ الفجر:21 ) یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آجائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کر دی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ اور جگہ فرمایا آیت ( هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ) 6 ۔ الانعام:158 ) یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیان آ جائیں اگر یہ ہو گیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں ، پھر آپ جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لئے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آجائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آجائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آجائیں گے ، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی ۔ دعا ( سبحان ذی الملک والملکوت ، سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لا یموت ، سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت ، سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح ، سبوح قدوس ، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا ) ، ۔ حافظ ابو بکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے واللہ اعلم ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہوگا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آرہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں ، زبیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر وزبرجد والا ہوگا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا ، ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا ، چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت ( ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) 2 ۔ البقرۃ:210 ) جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:25 ) ۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے ۔