Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰۤٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ كَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّهٖؕ اَفَتَـتَّخِذُوۡنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗۤ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِىۡ وَهُمۡ لَـكُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِيۡنَ بَدَلًا‏ ﴿50﴾
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ، یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدل ہے ۔
و اذ قلنا للملىكة اسجدوا لادم فسجدوا الا ابليس كان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذريته اولياء من دوني و هم لكم عدو بس للظلمين بدلا
And [mention] when We said to the angels, "Prostrate to Adam," and they prostrated, except for Iblees. He was of the jinn and departed from the command of his Lord. Then will you take him and his descendants as allies other than Me while they are enemies to you? Wretched it is for the wrongdoers as an exchange.
Aur jab hum ney farishton ko hukum diya kay tum adam ko sajda kero to iblees kay siwa sab ney sajda kiya yeh jinnon mein say tha uss ney apney perwerdigar ki na-farmani ki kiya phir bhi tum ussay aur uss ki aulad ko mujhay chor ker apna dost bana rahey ho? Halankay woh tum sab ka dushman hai. Aisay zalimon ka kiya hi bura badal hai.
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ : آدم کے آگے سجدہ کرو ۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے ( ٢٩ ) وہ جنات میں سے تھا ، چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ۔ کیا پھر بھی تم میرے بجائے اسے اور اس کی ذریت کو اپنا رکھوالا بناتے ہو ۔ حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں؟ ( اللہ تعالیٰ کا ) کتنا برا متبادل ہے جو ظالموں کو ملا ہے ۔ ( ٣٠ )
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو ( ف۱۰۹ ) تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے ، قوم جن سے تھا تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا ( ف۱۱۰ ) بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد و میرے سوا دوست بناتے ہو ( ف۱۱۱ ) اور وہ ہمارے دشمن ہیں ظالموں کو کیا ہی برا بدل ( بدلہ ) ملا ، ( ف۱۱۲ )
یاد کرو ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ۔ 47 وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا ۔ 48 اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں ۔
اور ( وہ وقت یاد کیجئے ) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم آدم ( علیہ السلام ) کو سجدۂ ( تعظیم ) کرو سو ان ( سب ) نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ ( ابلیس ) جنّات میں سے تھا تو وہ اپنے رب کی طاعت سے باہر نکل گیا ، کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بنا رہے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ، یہ ظالموں کے لئے کیا ہی برا بدل ہے ( جو انہوں نے میری جگہ منتخب کیا ہے )
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :47 اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روز آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :48 یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا ، اس لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا ۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرْوْنَ ( التحریم ٦ ) اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے وَھُم لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ( النحل ۵۰ ) وہ سرکشی نہیں کرتے ، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت ، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے ۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی ۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً ! لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر ، آیت ۲۷ ۔ اور الجِن ، آیات ۱۳ ۔ ۱۵ ) ۔ رہا یہ سوال کہ جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرز بیان کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائیں جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں ۔ چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں ۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔ ( لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳ )
محسن کو چھوڑ کر دشمن سے دوستی بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے اپنے خالق مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہئے اللہ کے احسان و اکرام اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا پالا پوسا پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تشریف ، تعظیم اور تکریم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا ، آگ سے پیدا شدہ تھا ، اس نے انکار کر دیا اور فاسق بن گیا ۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو وہی ٹپکتا ہے ۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا ، اسی لئے ان کے خطاب میں یہ بھی آ گیا لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آ گیا ، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے ۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی تیز آگ کے شعلے سے تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا ، جنتوں کا داروغہ تھا ، آسمان دینا کا بادشاہ تھا ، زمین کا بھی سلطان تھا ، اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آ گیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے ۔ وہ گھمنڈ ظاہر ہو گیا از روئے تکبر کے صاف انکا ردیا اور کافروں میں جا ملا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی مدنی بصری کوفی ۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا ۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا لیکن زمین پر رہتا تھا ۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا اسی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا ۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آ گیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا ۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا ۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں لیکن یہ اکثر بیشتر بنی اسرائیلی ہیں صرف اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں ۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے ۔ ہاں بنی اسرائیل کی روایتیں وہ تو قطعا قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے ، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم ان سے محض بےنیاز ہیں ۔ اس لئے کہ وہ تبدیل ترمیم کمی بیشی سے خالی نہیں ، بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہو گئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کر دیں ، کھرا کھوٹا پرکھ لیں ، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا ، تحریر کیا ۔ صحیح ، حسن ، ضعیف ، منکر ، متروک ، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا یا گھڑنے والوں ، بنانے والوں ، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کر دیا تاکہ ختم المرسلین العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اور مبرک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے ۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے آمین ! آمین! اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقینا ان سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو ۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا ۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورہ یاسین میں قیامت ، اس کی ہولناکیوں اور نیک و بد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرموں تم آج کے دن الگ ہو جاؤ ، الخ ۔ اللہ کے سوا سب ہی بے اختیار ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا اللہ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں ۔ کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں ۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے ۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے ۔ میرا کوئی شریک ، وزیر ، مشیر ، نظیر ، نہیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ( قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ 22؀ ) 34- سبأ:22 ) ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کر سکتا ہے ، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو جائے الخ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصا گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو اور مددگار بناؤں ۔