Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَيَوۡمَ يَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَكَآءِىَ الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡهُمۡ فَلَمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَهُمۡ وَجَعَلۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّوۡبِقًا‏ ﴿52﴾
اور جس دن وہ فرمائے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے انہیں پکارو! یہ پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا ہم ان کے درمیان ہلاکت کا سامان کر دیں گے ۔
و يوم يقول نادوا شركاءي الذين زعمتم فدعوهم فلم يستجيبوا لهم و جعلنا بينهم موبقا
And [warn of] the Day when He will say, "Call 'My partners' whom you claimed," and they will invoke them, but they will not respond to them. And We will put between them [a valley of] destruction.
Aur jiss woh farmaye ga kay tumharay khayal mein jo meray shareeq thay unhen pukaro! Yeh pukaren gay lekin unn mein say koi bhi jawab na dey ga hum unn kay darmiyan halakat ka saman ker den gay.
اور اس دن کا دھیان کرو جب اللہ ( ان مشرکوں سے ) کہے گا کہ : ذرا پکارو ان کو جنہیں تم نے میری خدائی میں شریک سمجھ رکھا تھا ۔ چنانچہ وہ پکاریں گے ، لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے ، اور ہم ان کے درمیان ایک مہلک آڑ حائل کردیں گے ۔
اور جس دن فرمائے گا ( ف۱۱٤ ) کہ پکارو میرے شریکوں کو جو تم گمان کرتے تھے تو انھیں پکاریں گے وہ انھیں جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے ( ف۱۱۵ ) درمیان ایک ہلاکت کا میدان کردیں گے ( ف۱۱٦ )
پھر کیا کریں گے یہ لوگ اس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب ان ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے ۔ 50 یہ ان کو پکاریں گے ، مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے ۔ 51
اور اُس دن ( کو یاد کرو جب ) اﷲ فرمائے گا: انہیں پکارو جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ، سو وہ انہیں بلائیں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان ( ایک وادئ جہنم کو ) ہلاکت کی جگہ بنا دیں گے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :50 یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے ، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو ۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے ۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے ، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو ۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء حاشیہ ۹۱ ۔ ۱٤۵ ۔ الانعام ، حاشیہ ٦۷ ۔ ۱۰۷ جلد دوم التوبہ ، حاشیہ ۳۱ ۔ ابراہیم ، حاشیہ ۲۳ ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ ۲۷ ۔ المومنون ، حاشیہ ٤۱ ۔ الفرقان ، حاشیہ ۵٦ ۔ القصص ، حاشیہ ۸٦ جلد چہارم ، سَبَا ، حاشیہ ۵۹ ۔ ٦۰ ۔ ٦۱ ۔ ٦۲ ٦۳ ۔ یٰسین ، حاشیہ ۵۳ ، الشوریٰ ، حاشیہ ۳۸ ۔ لجاثیہ ، حاشیہ ۳۰ ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :51 مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے ۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی ۔
مشرک قیامت کو شرمندہ ہوں گے تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لئے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنہیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمہیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں وہ پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ پائیں گے جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ 94؀ۧ ) 6- الانعام:94 ) ہم تمہیں اسی طرح تنہا تنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمہارے ساتھ ان شریکوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الہٰی ٹھیرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کئے ہوئے تھے تمہارے اور ان کے درمیان میں تعلقات ٹوٹ گئے اور تمہارے گمان باطل ثابت ہو چکے اور آیت میں ہے ( وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ 64؀ ) 28- القصص:64 ) کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے الخ اسی مضمون کو آیت ومن اضل سے دو آیتوں تک بیان فرمایا ہے سورہ مریم میں ارشاد ہے کہ انہوں نے اپنی عزت کے لئے اللہ کے سوا اور بہت معبود بنا رکھے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا وہ تو سب ان کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ۔ ان میں اور ان کے معبودان باطل میں ہم آڑ حجاب اور ہلاکت کا گڑھا بنا دیں گے تاکہ یہ ان سے اور وہ ان سے نہ مل سکیں ۔ نیک راہ اور گمراہ الگ الگ رہیں ، جہنم کی یہ وادی انہیں آپس میں ملنے نہ دے گی ۔ کہتے ہیں یہ وادی لہو اور پیپ کی ہو گی ، ان میں آپس میں اس دن دشمنی ہو جائے گی ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے ہلاکت ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کی کوئی وادی بھی ہو یا اور کوئی فاصلے کی وادی ہو ، مقصود یہ ہے کہ ان عابدوں کو نہ معبود جواب تک نہ دیں گے نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے ۔ کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت ہو گی اور ہولناک امور ہوں گے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کر دیں گے جیسے آیت ( وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ 14؀ ) 30- الروم:14 ) اور آیت ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ 43؀ ) 30- الروم:43 ) اور آیت ( وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ 59؀ ) 36-يس:59 ) اور آیت ( وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 22؀ ) 6- الانعام:22 ) وغیرہ میں ہے ۔ یہ گنہگار جہنم دیکھ لیں گے ۔ ستر ہزار لگاموں میں وہ جکڑی ہوئی ہو گی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے دیکھتے ہی سمجھ لیں گے کہ ہمارا قیدخانہ یہی ہے ۔ داخلے کے بغیر داخلے سے بھی زیادہ رنج و غم اور مصیبت والم شروع ہو جائے گا ۔ عذاب کا یقین عذاب سے پہلے کا عذاب ہم لیکن کوئی چھٹکارے کی راہ نہ پائیں گے کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی ۔ حدیث میں ہے کہ پانچ ہزار سال تک کافر اسی تھر تھری میں رہے گا کہ جہنم اس کے سامنے اور اس کا کلیجہ قابو سے باہر ہے ۔