Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰى وَيَسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِيَهُمۡ سُنَّةُ الۡاَوَّلِيۡنَ اَوۡ يَاۡتِيَهُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا‏ ﴿55﴾
لوگوں کے پاس ہدایت آچکنے کے بعد انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے استغفار کرنے سے صرف اسی چیز نے روکا کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ انہیں بھی پیش آئے یا ان کے سامنے کھلم کھلا عذاب آ موجود ہو جائے ۔
و ما منع الناس ان يؤمنوا اذ جاءهم الهدى و يستغفروا ربهم الا ان تاتيهم سنة الاولين او ياتيهم العذاب قبلا
And nothing has prevented the people from believing when guidance came to them and from asking forgiveness of their Lord except that there [must] befall them the [accustomed] precedent of the former peoples or that the punishment should come [directly] before them.
Logon kay pass hidayat aa chukney ka baad unhen eman laney aur apney rab say isataghfaar kerney say sirf issi cheez ney roka kay aglay logon ka sa moamla unhen bhi paish aaye ye unn kay samney khullam khulla azab aa mojood hojaye.
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آچکی تو اب انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے اس ( مطالبے ) کے سوا کوئی اور چیز نہیں روک رہی کہ ان کے ساتھ بھی پچھلے لوگوں جیسے واقعات پیش آجائیں ، یا عذاب ان کے بالکل سامنے آکھڑا ہو ۔ ( ٣٢ )
اور آدمیوں کو کسی چیز نے اس سے روکا کہ ایمان لاتے جب ہدایت ( ف۱۱۹ ) ان کے پاس آئی اور اپنے رب سے معافی مانگتے ( ف۱۱۳ ) مگر یہ کہ ان پر اگلوں کا دستور آئے ( ف۱۲۱ ) یا ان پر قسم قسم کا عذاب آئے
ان کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر ان کو کس چیز نے روک دیا ؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے ، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! 52
اور لوگوں کو جبکہ ان کے پاس ہدایت آچکی تھی کسی نے ( اس بات سے ) منع نہیں کیا تھا کہ وہ ایمان لائیں اور اپنے رب سے مغفرت طلب کریں سوائے اس ( انتظار ) کے کہ انہیں اگلے لوگوں کا طریقہ ( ہلاکت ) پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :52 یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے ، قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔ دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے مؤثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے ، وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کیے جا چکے ہیں ۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہو رہی ہے؟صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے ۔ جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے ۔
عذاب الہٰی کے منتظر کفار اگلے زمانے کے اور اس وقت کے کافروں کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی اسکی تابعداری سے رکے رہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں کو اپنے آنکھوں دیکھ لیں کسی نے تمنا کی کہ آسمان ہم پر گر پڑے کسی نے کہا کہ لا جو عذاب لا سکتا ہے لے آ ۔ قریش نے بھی کہا اے اللہ اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور درد ناک عذاب ہمیں کر ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اے نبی ہم تو تجھے مجنوں جانتے ہیں اور اگر فی الواقع تو سچا نبی ہے تو ہمارے سامنے فرشتے کیوں نہیں لاتا ؟ وغیرہ وغیرہ پس عذاب الہٰی کے انتظار میں رہتے ہیں اور اس کے معائنہ کے درپے رہتے ہیں ۔ رسولوں کا کام تو صرف مومنوں کو بشارتیں دینا اور کافروں کو ڈرا دینا ہے ۔ کافر لوگ ناحق کی حجتیں کر کے حق کو اپنی جگہ سے پھسلا دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ چاہت کبھی پوری نہیں ہو گی حق ان کی باطل باتوں سے دبنے والا نہیں ۔ یہ میری آیتوں اور ڈراوے کی باتوں کو خالی مذاق سمجھ رہے ہیں اور اپنی بے ایمانی میں بڑھ رہے ہیں ۔