Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً  فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ وَاَنۡزَلَ مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ فِيۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ ‌ؕ وَمَا اخۡتَلَفَ فِيۡهِ اِلَّا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡهُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ بَغۡيًا ۢ بَيۡنَهُمۡ‌ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ مِنَ الۡحَـقِّ بِاِذۡنِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿213﴾
در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے اللہ تعالٰی نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں ، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہو جائے ۔ اور صرف ان ہی لوگوں نے جنہیں کتاب دی گئی تھی ، جو اسے دیئے گئے تھے ، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی اور اللہ تعالٰی جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے ۔
كان الناس امة واحدة فبعث الله النبين مبشرين و منذرين و انزل معهم الكتب بالحق ليحكم بين الناس فيما اختلفوا فيه و ما اختلف فيه الا الذين اوتوه من بعد ما جاءتهم البينت بغيا بينهم فهدى الله الذين امنوا لما اختلفوا فيه من الحق باذنه و الله يهدي من يشاء الى صراط مستقيم
Mankind was [of] one religion [before their deviation]; then Allah sent the prophets as bringers of good tidings and warners and sent down with them the Scripture in truth to judge between the people concerning that in which they differed. And none differed over the Scripture except those who were given it - after the clear proofs came to them - out of jealous animosity among themselves. And Allah guided those who believed to the truth concerning that over which they had differed, by His permission. And Allah guides whom He wills to a straight path.
Dar-asal log aik hi giroh thay Allah Taalaa ney nabiyon ko khushkhabri denay aur daraney wala bana ker bheja aur unn kay sath sachi kitaben nazil farmaeen takay logon kay her ikhtilafi amar ka faisla hojaye. Aur sirf unhi logon ney jinhen kitab di gaee thi apney pass dalaeel aa chukney kay baad aapas kay bughz-o-aeynaad ki waja say iss mein ikhtilaf kiya iss liye Allah pak ney eman walon ki iss ikhtilaf mein bhi haq ki taraf apni mashiyat say rehbari ki aur Allah jiss ko chahaye seedhi raah ki taraf rehbari kerta hai.
۔ ( شروع میں ) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے ، پھر ( جب ان میں اختلاف ہوا تو ) اللہ نے نبی بھیجے جو ( حق والوں کو ) خوشخبری سناتے ، اور ( باطل والوں کو ) ڈراتے تھے ، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی ، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا ۔ اور ( افسوس کی بات یہ ہے کہ ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی ، روشن دلائل آجانے کے بعد بھی ، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی ( کتاب ) میں اختلاف نکال لیا ، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا ، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے ۔
لوگ ایک دین پر تھے ( ف٤۰۵ ) پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ( ف٤۰٦ ) اور ڈر سناتے ( ف٤۰۷ ) اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری ( ف٤۰۸ ) کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف انہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی ( ف٤۰۹ ) بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے ( ف٤۱۰ ) آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے ، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے ،
ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے ۔ ﴿ پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے﴾تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے ، اور ان کے ساتھ کتاب ِبرحق نازل کی تا کہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ﴿اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا ۔ نہیں ، ﴾ اختلاف ان لوگوں نے کیا ، جنہیں حق کا علم دیا چکا تھا ۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے230 ۔ ۔ ۔ ۔ پس جو لوگ انبیا علیہ السلام پر ایمان لے آئے ، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا ، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا ۔ اللہ جسے چاہتا ہے ، راہِ راست دکھا دیتا ہے ۔
۔ ( ابتداء میں ) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے ، ( پھر جب ان میں اختلافات رونما ہو گئے ) تو اﷲ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا ، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور اس میں اختلاف بھی فقط انہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی ، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں ، ( اور انہوں نے یہ اختلاف بھی ) محض باہمی بغض و حسد کے باعث ( کیا ) پھر اﷲ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھا دی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے ، اور اﷲ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :230 ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی ، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا ۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے ۔ اس کے بعد ایک مدت تک نسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی ۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی ، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات ، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے ۔ اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا ۔ یہ انبیا علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے ۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنا دیں ۔
آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت ( وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا ) 10 ۔ یونس:19 ) ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے ، قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے ، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے ، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا ، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہوسکے ، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صر ف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کر سکے ، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے ، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا ، زید بن اسلم فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی ، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں ، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں ، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں ، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے ، اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ کسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے ، حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی ، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا ، ربیع بن انس فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہو گیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہو گی یہاں تک کہ امت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی ، قوم یہود ، قوم صالح ، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی ، حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت ( واللہ یہدی ) الخ ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت ( ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ ) الخ ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ ، گمراہی ، اور فتنوں سے بچنا چاہئے ، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے ، بخاری ومسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا ( اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم ۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین ۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے ( اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما ) ۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا ۔