Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ‏ ﴿214﴾
کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سُن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے ۔
ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما ياتكم مثل الذين خلوا من قبلكم مستهم الباساء و الضراء و زلزلوا حتى يقول الرسول و الذين امنوا معه متى نصر الله الا ان نصر الله قريب
Or do you think that you will enter Paradise while such [trial] has not yet come to you as came to those who passed on before you? They were touched by poverty and hardship and were shaken until [even their] messenger and those who believed with him said,"When is the help of Allah ?" Unquestionably, the help of Allah is near.
Kiya tum yeh guman kiye bethay ho kay jannat mein chalay jao gay halankay abb tak tum per woh halaat nahi aaye jo tum say aglay logon per aaye thay. Unehn beemariyan aur musibaten phonchi aur woh yahan tak jhanjoray gaye kay rasool aur uss kay sath kay eman walay kehney lagay kay Allah ki madad kab aaye gi? Sun rakho kay Allah ki madad qarib hi hai.
۔ ( مسلمانو ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں ( یونہی ) داخل ہوجاؤ گے ، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہوگذرے ہیں ۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں ، اور انہیں ہلا ڈالا گیا ، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ‘‘ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟’’ یا درکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے ۔
کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد ( حالت ) نہ آئی ( ف٤۱۱ ) پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول ( ف٤۱۲ ) اور اس کے ساتھ ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد ( ف٤۱۳ ) سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے ،
پھر کیا 231 تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا ، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے ، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزر یں ، مصیبتیں آئیں ، ہِلا مارے گئے ، حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے ۔
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم ( یونہی بلا آزمائش ) جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت ( ہی ) نہیں بیتی جو تم سے پہلے گزر چکے ، انہیں توطرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور انہیں ( اس طرح ) ہلا ڈالا گیا کہ ( خود ) پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی ( بھی ) پکار اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ بیشک اﷲ کی مدد قریب ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :231 اوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پوری داستان کی داستان ہے ، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے ، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سورتوں میں ( جو سورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں ) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے ۔ انبیا علیہم السلام جب کبھی دنیا میں آئے ، انہیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جوکھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دین حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی ۔ اس دین کا راستہ کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے ۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو ، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوتیں صرف کر دے ۔
ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا ، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں ، بأساء کے معنی فقیری وضراء کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے ۔ ( زلزلوا ) ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے ، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے ، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے ، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا ، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو ، قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ آیت ( الۗمّۗ Ǻ۝ۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ Ą۝ ) 29 ۔ العنکبوت:1 ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقینا ہم نکھار کر رہیں گے ، چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت ( اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ) 33 ۔ الاحزاب:10 ) یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آگئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہو گئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافق اور ڈھل مل یقین لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے ہرقل نے جب ابو سفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابو سفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَّمَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف:8 ) ، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Ĉ۝ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Č۝ۭ ) 94 ۔ الشرح:6-5 ) ، یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے ۔