Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
قَالَ لَهٗ مُوۡسٰى هَلۡ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓى اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا‏ ﴿66﴾
اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ۔
قال له موسى هل اتبعك على ان تعلمن مما علمت رشدا
Moses said to him, "May I follow you on [the condition] that you teach me from what you have been taught of sound judgement?"
Iss say musa ney kaha kay mein aap ki tabeydaari keroon? Kay aap mujhay iss nek ilm ko sikha den jo aap ko sikhaya gaya hai.
موسی نے ان سے کہا : کیا میں آپ کے ساتھ اس غرض سے رہ سکتا ہوں کہ آپ کو بھلائی کا جو علم عطا ہوا ہے ، اس کا کچھ حصہ مجھے بھی سکھا دیں؟
اس سے موسیٰ نے کہا کیا میں تمہارے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھا دو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی ( ف۱٤۷ )
موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اس سے کہا”کیا میں آپ کی ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟
اس سے موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس ( شرط ) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے ( بھی ) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے
شوق تعلیم و تعلم یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھی ۔ حضرت خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ تھا ۔ اور حضرت موسیٰ کے پاس وہ علم تھا جس سے حضرت خضر بےخبر تھے پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لئے کہ حضرت خضر کو مہربان کرلیں ان سے سوال کرتے ہیں ۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہئے پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں ، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہو جائیں ۔ حضرت خضر اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر ۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں ۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں ۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کا معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے ۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کریں گے میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا ۔ پھر حضرت خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا میں جو کہوں وہ سن لینا تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتدا نہ کرنا ۔ ابی جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کے جو ہر وقت میری یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے ۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے ۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ جو عالم زیادہ علم کی جستجو میں رہے ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممک ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر ۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کروں؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو ۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چلے پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں ۔ چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا ۔