Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
اَمَّا السَّفِيۡنَةُ فَكَانَتۡ لِمَسٰكِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ فِى الۡبَحۡرِ فَاَرَدْتُّ اَنۡ اَعِيۡبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُمۡ مَّلِكٌ يَّاۡخُذُ كُلَّ سَفِيۡنَةٍ غَصۡبًا‏ ﴿79﴾
کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے ۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کر نے کا ارادہ کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک ( صحیح سالم ) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا ۔
اما السفينة فكانت لمسكين يعملون في البحر فاردت ان اعيبها و كان وراءهم ملك ياخذ كل سفينة غصبا
As for the ship, it belonged to poor people working at sea. So I intended to cause defect in it as there was after them a king who seized every [good] ship by force.
Kashti to chand miskeeno ki thi jo daya mein kaam kaaj kertay thay. Mein ney uss mein kuch tor phor kerney ka irada ker liya kiyon kay unn kay aagay aik badshah tha jo her aik ( sahih saalim ) kashti ko jabran zabt ler leta tha.
جہاں تک کشتی کا تعلق ہے وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے ، میں نے چاہا کہ اس میں کوئی عیب پیدا کردوں ، ( کیونکہ ) ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ( اچھی ) کشتی کو زبردستی چھین کر رکھ لیا کرتا تھا ۔
وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی ( ف۱٦۷ ) کہ دریا میں کام کرتے تھے ، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا ( ف۱٦۸ ) کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا ( ف۱٦۹ )
اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے ۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں ، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا ۔
وہ جو کشتی تھی سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی وہ دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کر دوں اور ( اس کی وجہ یہ تھی کہ ) ان کے آگے ایک ( جابر ) بادشاہ ( کھڑا ) تھا جو ہر ( بے عیب ) کشتی کو زبردستی ( مالکوں سے بلامعاوضہ ) چھین رہا تھا
اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا ۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا ۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا ۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے ۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا ۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے ۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، واللہ اعلم ۔