Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَاَمَّا الۡجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَيۡنِ يَتِيۡمَيۡنِ فِى الۡمَدِيۡنَةِ وَكَانَ تَحۡتَهٗ كَنۡزٌ لَّهُمَا وَكَانَ اَبُوۡهُمَا صَالِحًـا ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنۡ يَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَيَسۡتَخۡرِجَا كَنۡزَهُمَا ۖ  رَحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ‌‌ ۚ وَمَا فَعَلۡتُهٗ عَنۡ اَمۡرِىۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ تَاۡوِيۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعْ عَّلَيۡهِ صَبۡرًا ؕ‏ ﴿82﴾
دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا ۔
و اما الجدار فكان لغلمين يتيمين في المدينة و كان تحته كنز لهما و كان ابوهما صالحا فاراد ربك ان يبلغا اشدهما و يستخرجا كنزهما رحمة من ربك و ما فعلته عن امري ذلك تاويل ما لم تسطع عليه صبرا
And as for the wall, it belonged to two orphan boys in the city, and there was beneath it a treasure for them, and their father had been righteous. So your Lord intended that they reach maturity and extract their treasure, as a mercy from your Lord. And I did it not of my own accord. That is the interpretation of that about which you could not have patience."
Deewar ka qissa yeh hai kay iss shehar mein do yateem bachay hain jin ka khazana inn ki iss deewar kay neechay dafan hai inn ka baap bara nek shaks tha to teray rab ki chahat thi kay yeh dono yateem apni jawani ki umar mein aaker apna yeh khazana teray rab ki meharbani aur rehmat say nikal len mein ney apni raye say koi kaam nahi kiya yeh thi asal haqeeqat unn waqiyaat ki jin per aap say sabar na hosaka.
رہی یہ دیوار ، تو وہ اس شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی ، اور اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ گڑا ہوا تھا ، اور ان دونوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا ۔ اس لیے آپ کے پروردگار نے یہ چاہا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کی عمر کو پہنچیں ، اور اپنا خزانہ نکال لیں ۔ یہ سب کچھ آپ کے رب کی رحمت کی بنا پر ہوا ہے ، اور میں نے کوئی کام اپنی رائے سے نہیں کیا ۔ یہ تھا مقصد ان باتوں کا جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا ۔ ( ٤١ )
رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی ( ف۱۷۳ ) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا ( ف۱۷٤ ) اور ان کا باپ نیک آدمی تھا ( ف۱۷۵ ) تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں ( ف۱۷٦ ) اور اپنا خزانہ نکالیں ، آپ کے رب کی رحمت سے اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا ( ف۱۷۷ ) یہ پھیر ہے ان باتوں کا جس پر آپ سے صبر نہ ہوسکا ( ف۱۷۸ )
اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں ۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا ۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں ۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے ، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے ۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے ۔ 60 ؏ 10
اور وہ جو دیوار تھی تو وہ شہر میں ( رہنے والے ) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ ( مدفون ) تھا اور ان کا باپ صالح ( شخص ) تھا ، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ ( خود ہی ) نکالیں ، اور میں نے ( جو کچھ بھی کیا ) وہ اَز خود نہیں کیا ، یہ ان ( واقعات ) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :60 اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے ۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکرا تا ، مگر پہلے دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتدائے عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہٰیہ میں ثابت رہے ہیں ۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے ، اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا ، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا ، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے ۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے ، فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کرتا ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے ۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے ، اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ خود فرما چکا ہے کہ حضرت خضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا ۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے ۔ مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے ، کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے ۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے ، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے ، کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں ۔ اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہٰیہ کی تعمیل کرتے ہیں ۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے ، اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے ، بہرحال وہ گناہگار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو ۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے ، احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علمائے شریعت متفق ہیں ، بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی ، محی الدین ابن عربی ، مجدد الف ثانی ، شیخ عبد القادر جیلانی ، جنید بغدادی ، سَری سقطی ، ابلوحسین النوری ، ابو سعید الخر از ، ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو ۔ ( روح المعانی ۔ ج ، 16 ۔ ص 16 ۔ 18 ) اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت ( نہ کہ شریعت الہٰی کے تحت ) کام کرتے ہیں ؟ پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ بندہ جس کے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے ، انسان تھا ۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدًا مَّنْ عِبَادِنَا ( ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں ، قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے ، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء ، آیت 26 ۔ اور سورہ زخرف ، آیت 19 ۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو ۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر ، عن ابن عباس ، عن اُبی بن کعب ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۃ حدیث کو پہنچی ہیں ۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے ، جو اگرچہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے ۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آئے گا تو انسانی شکل ہی میں آئے گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جائے گا ۔ حضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآن اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا ۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو رفع کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم خضر کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے ، یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے ۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔
اللہ کی حفاظت کا ایک انداز ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے ( اِذَآ اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَـةِ 77؀ ) 18- الكهف:77 ) فرمایا تھا اور یہاں فی المدینۃ فرمایا ۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے ۔ فرمان ہے ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀ ) 47-محمد:13 ) اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے ( وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31؀ ) 43- الزخرف:31 ) آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کردینے میں مصلحت الہٰی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا ۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گویہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا ۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہو تے ہوئے اپنی جان کو محنت ومشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج وغم برداشت کر رہا ہے ۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے ۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصیصہ کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے ۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصحیتں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا ۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریبا یہی مروی ہے ۔ امام جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں ، الخ ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے ۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں صراحتا مذکور ہے دیکھئے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیکی عملا بیان ہوئی ہے ۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا واللہ اعلم ۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا ، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دیکھئے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے فاردنا اور فاردت کے لفظ ہیں واللہ اعلم ۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھیں سراسر رحمت تھیں ۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی ۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الہٰی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا ۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا ۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی نہیں کئے بلکہ احکام الہٰی بجا لایا ۔ اس سے بعض لوگوں نے حضرت خضر کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ولی اللہ تھے ۔ امام ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا ۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے ، لقب خضر ہے ۔ امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے ۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لئے آپ تشریف لائے تھے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں ۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ 34؀ ) 21- الأنبياء:34 ) ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی ۔ اور دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الہٰی اگر میری جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی ۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر حضرت خضر رحمۃاللہ علیہ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام جن وانس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ( زمین پر ) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا ۔ آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خضر کو خضر اس لئے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سبزہ اگ آیا ۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مرادیہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی ۔ الغرض حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گھتی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لئے آپ جلدی کر رہے تھے ۔ چونکہ پہلے شوق ومشقت زیادہ تھی اس لئے لفظ لم تستطع کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لئے لفظ لم تسطع کہا ۔ یہی صفت آیت ( فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا 97؀ ) 18- الكهف:97 ) میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے ۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لئے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی ۔ واللہ اعلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں اس لئے کہ مقصود صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لئے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی ۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے ۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک ہے ۔