[Dhul-Qarnayn] said, "This is a mercy from my Lord; but when the promise of my Lord comes, He will make it level, and ever is the promise of my Lord true."
ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی رحمت ہے ( کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی ) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس ( دیوار ) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا ، ( ٥٠ ) اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے ۔
۔ ( ذوالقرنین نے ) کہا: یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے ، پھر جب میرے رب کا وعدۂ ( قیامت قریب ) آئے گا تو وہ اس دیوار کو ( گرا کر ) ہموار کردے گا ( دیوار ریزہ ریزہ ہوجائے گی ) ، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :71
یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے ، مگر یہ لازوال نہیں ہے ۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے ، یہ قائم رہے گی ، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی ۔ وعدے کا وقت ذو معنی لفظ ہے ۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے ، یعنی قیامت ۔ ( اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۔ 2 )
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :72
یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ قصہ اگرچہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے ، مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین ، جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے ، محض ایک فاتح ہی نہ تھا ، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا ، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا ، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگرے نیست ۔