Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌  ۚ فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا‏ ﴿110﴾
آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ( ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔
قل انما انا بشر مثلكم يوحى الي انما الهكم اله واحد فمن كان يرجوا لقاء ربه فليعمل عملا صالحا و لا يشرك بعبادة ربه احدا
Say, "I am only a man like you, to whom has been revealed that your god is one God. So whoever would hope for the meeting with his Lord - let him do righteous work and not associate in the worship of his Lord anyone."
Aap keh dijiye kay mein to tum jaisa hi aik insan hun. ( haan ) meri janib wahee ki jati hai kay sab ka mabood aik hi mabood hai to jisay bhi apney perwerdigar say milney ki aarzoo ho ussay chahaye kay nek aemaal keray aur apney perwerdigar ki ibadat mein kissi ko bhi shareeq na keray.
کہہ دو کہ : میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں ( البتہ ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا خدا بس ایک خدا ہے ۔ لہذا جس کسی کو اپنے مالک سے جاملنے کی امید ہو ، اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے ، اور اپنے مالک کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے ۔
تو فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں ( ف۲۲۲ ) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ( ف۲۲۳ ) تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ( ف۲۲٤ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔ ؏ 12
فرما دیجئے: میں تو صرف ( بخلقتِ ظاہری ) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں ( اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے! ذرا غور کرو ) میری طرف وحی کی جاتی ہے ( بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے ) وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبودِ یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے
سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ، تم بھی انسان ہو ، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ۔ اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گذشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ شرک کو چھوڑ دو ۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجروثواب لینا چاہتاہو اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیں ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو ۔ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الہٰی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لئے کیا حکم ہے آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز روزہ صدقہ خیرات حج زکوٰۃ کرتا ہے ، اللہ کی رضامندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی ۔ آپ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ، رات گزارتے ، کبھی آپ کو کئی کام ہوتا تو فرما دیتے ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیج دجال کا ذکر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے ۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے ۔ مسند احمد میں ہے ابن غنم کہتے ہیں میں اور حضرت ابو درداء جابیہ کی مسجد میں گئے وہاں ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے حضرت ابو درداء کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے ۔ آپ فرمانے لگے دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرومنزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عوف بن مالک آگئے اور بیٹھتے ہی حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگوں مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا ۔ اس پر حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ معاف فرمائے ہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لئے نماز روزہ صدقہ خیرات کرتا ہے ۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا بیشک ایسا شخص مشرک ہے ، آپ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لئے نماز پڑھے وہ مشرک ہے جو دنیا کو دکھانے کے لئے روزے رکھے وہ مشرک ہے جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لئے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے اس پر حضرت عوف بن مالک نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لئے ہو اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لئے ہو اسے رد کر دے ؟ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا یہ ہرگز نہیں ہونے کا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں ، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کر شریک کرے میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کردیتا ہوں ۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں اور روایت میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رونے لگے ہم نے پوچھا حضرت آپ کیسے رو رہے ہیں فرمانے لگے ایک حدیث یاد آگئی ہے اور اس نے رلا دیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو وہ چاند پتھر بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی ۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی روزہ چھوڑ دیا ( ابن ماجہ مسند احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں ۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو ملالے میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لئے ہی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے لوگوں نے پوچھا وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری ۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لئے عمل کئے تھے انہی کے پاس جزا مانگو ۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟ ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہوا سے چاہئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بےنیاز ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہوگا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہوگا ( مسند احمد ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے نیک اعمال اچھا لنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر وذلیل ہوگا ۔ یہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ( مسند احمد ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا اسے پھینک دو اسے قبول کرو اسے قبول کرو اسے پھنیک دو اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضامند مطلوب نہ تھی بلکہ ان کی ریاکاری تھی آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لئے ہی کئے گئے ہوں ( بزار ) ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لئے کھڑا ہواہو وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں رہی رہتا ہے ابو یعلی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بےدلی سے ادا کرے اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ کہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدلانہیں اس کے بعد کوئی ایسی آیت نہیں اتری جس میں تبدیلی وتغیر کرے واللہ اعلم ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابو بکر بزار رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت ( من کان یرجو ) الخ ، کو رات کے وقت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے ۔