Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
وَاذۡكُرۡ فِى الۡكِتٰبِ مُوۡسٰٓى‌ اِنَّهٗ كَانَ مُخۡلَصًا وَّكَانَ رَسُوۡلًا نَّبِيًّا‏ ﴿51﴾
اس قرآن میں موسیٰ ( علیہ السلام ) کا ذکر بھی کر جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا ۔
و اذكر في الكتب موسى انه كان مخلصا و كان رسولا نبيا
And mention in the Book, Moses. Indeed, he was chosen, and he was a messenger and a prophet.
Iss quran mein musa ( alh-e-salam ) ka zikar bhi ker jo chuna hua rasool aur nabi tha.
اور اس کتاب میں موسیٰ کا بھی تذکرہ کرو ۔ بیشک وہ اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے ، اور رسول اور نبی تھے ۔ ( ٢٦ )
اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو ، بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا ،
اور ذکر کرو اس کتاب میں موسی ( علیہ السلام ) کا ۔ وہ ایک چیدہ 29 شخص تھا اور رسول نبی 30 تھا ۔
اور ( اس ) کتاب میں موسٰی ( علیہ السلام ) کا ذکر کیجئے ، بیشک وہ ( نفس کی گرفت سے خلاصی پاکر ) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ مخلص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں خالص کیا ہوا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسی ایک ایسے شخص جن کو اللہ تعالی نے خالص اپنا کر لیا تھا ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :30 رسول کے معنی ہیں فرستادہ بھیجا ہوا اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد پیغام بر ، ایلچی اور سفیر کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور قرآن میں یہ لفظ یا تو ان ملائک کے لئے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے کسی کار خاص پر بھیجے جاتے ہیں یا پھر ان انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالی نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مامور فرمایا ۔ نبی کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض اس کو لفظ نبا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں ، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی خبر دینے والے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک اس کا مادہ نبو ہے ، یعنی رفعت اور بلندی اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے بلند مرتبہ اور عالی مقام ۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبی ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں ، اور انبیاء کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں ۔ پس کسی شخص کو رسول نبی کہنے کا مطلب یا تو عالی مقام پیغمبر ہے ، اللہ تعالی کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر یا پھر وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے ۔ اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے ۔ مثلاً سورہ حج ، رکوع 7 میں فرمایا وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی الا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے ۔ اسی بنا پر اہل تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کا تعین نہیں کر سکا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول کا لفظ ان جلیل القدر ہستیوں کے لئے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا ۔ اسی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت ابو امامہ سے اور حاکم نے حضرت ابوذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے 313 یا 315 بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ 24 ۔ ہزار بتائی ۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں ، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے ۔
خلوص ابراہیم علیہ السلام ۔ اپنے خلیل علیہ السلام کا بیان فرما کر اب اپنے کلیم علیہ السلام کا بیان فرماتا ہے ۔ مُخلَصاً کی دوسری قرأت مُخلِصاً بھی ہے ۔ یعنی وہ بااخلاص عبات کرنے والے تھے ۔ مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اے روح اللہ ہمیں بتائیے مخلص شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو محض اللہ کے لئے عمل کرے اسے اس بات کی چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریفیں کریں ۔ دوسری قرأت میں مُخلَصا ہے یعنی اللہ کے چیدہ اور برگزیدہ بندے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے فرمان باری ہے ( اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤؁ ) 7- الاعراف:144 ) آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے پانچ بڑے بڑے جلیل القدر اولو العزم رسولوں میں سے ایک آپ ہیں یعنی ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم وعلی سائر الانبیاء اجمعین ۔ ہم نے انہیں مبارک پہاڑطور کی دائیں جانب سے آواز دی سرگوشی کرتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ آگ کی تلاش میں طور کی طرف یہاں آگ دیکھ کر بڑھے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس قدر قریب ہوگئے کہ قلم کی آواز سننے لگے ۔ مراد اس سے توراۃ لکھنے کی قلم ہے ۔ سدی کہتے ہیں آسمان میں گئے اور کلام باری سے مشرف ہوئے ۔ کہتے ہیں انہی باتوں میں یہ فرمان بھی ہے کہ اے موسیٰ جب کہ میں ترے دل کو شکر گزار اور تیری زبان کو اپنا ذکر کرنے والی بنا دوں اور تجھے ایسی بیوی دوں جو نیکی کے کاموں میں تیری معاون ہو تو سمجھ لے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی اٹھا نہیں رکھی ۔ اور جسے میں یہ چیزیں نہ دوں سمجھ لے کہ اسے کوئی بھلائی نہیں ملی ۔ ان پر ایک مہربانی ہم نے یہ بھی کی کہ ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ان کی امداد کے لئے ان کے ساتھ کر دیا جیسے کہ آپ کی چاہت اور دعا تھی ۔ فرمایا تھا ( وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ 34؀ ) 28- القصص:34 ) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36؁ ) 20-طه:36 ) موسیٰ تیرا سوال ہم نے پورا کر دیا ۔ آپ کی دعا کے لفظ یہ بھی وارد ہیں ( فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ 13؀ ) 26- الشعراء:13 ) ، ہارون کو بھی رسول بنا الخ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ دعا اور اس سے بڑھ کر شفاعت کسی نے کسی کی دنیا میں نہیں کی ۔ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھما ۔