Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ‌ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا ۙ‏ ﴿59﴾
پھر ان کے بعد ایسے نہ خلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا ۔
فخلف من بعدهم خلف اضاعوا الصلوة و اتبعوا الشهوت فسوف يلقون غيا
But there came after them successors who neglected prayer and pursued desires; so they are going to meet evil -
Phir inn kay baad aisay na khalaf peda huye kay unhon ney namaz zaya ker di aur nafsani khuwishon kay peechay parr gaye so unn ka nuksan unn kay aagay aayega.
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا ، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے ۔ چنانچہ ان کی گمراہی بہت جلد ان کے سامنے آجائے گی ۔ ( ٣٠ )
تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے ( ف۱۰۱ ) جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے ( ف۱۰۲ ) تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے ( ف۱۰۳ )
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا 35 اور خواہشات نفس کی پیروی کی ، 36 پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔
پھر ان کے بعد وہ ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کردیں اور خواہشاتِ ( نفسانی ) کے پیرو ہوگئے تو عنقریب وہ آخرت کے عذاب ( دوزخ کی وادئ غی ) سے دوچار ہوں گے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :35 یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی ، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے ۔ یہ ہر امت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے ۔ نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا ۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیا کی امتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہوا ہے ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :36 یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے ۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں یہ غفلت بڑھتی گئی ، خواہشات نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکام الہی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا ۔
حدود الہٰی کے محافظ ۔ نیک لوگوں کا خصوصا انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا جو حدود الہٰی کے محافظ ، نیک اعمال کے نمونے بدیوں سے بچتے ہیں ۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بےپرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل وبہتر ہے ۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ کئے انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑنا بیٹھنا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے ۔ یہی ایک قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا ۔ اس مسئلہ کو تقصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے ، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے ، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے ، کہیں محافظت کا ۔ آپ نے فرمایا ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے ۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے ۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے ۔ خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کر دینا ہے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے ۔ عطابن ابو رباح رحمۃ اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کر دیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے ۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ۔ یاد رکھو قاری تین قسم کے ہوتے ہیں مومن منافق اور فاجر ۔ راوی حدیث حضرت ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے ۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد وعورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں ۔ حضرت کعب بن احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں ۔ یہ نشے پینے والے ، نمازیں چھوڑنے والے ، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے ، عشا کی نمازوں کے وقت سو جانے والے ، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کرکے پیٹو بن کرکھانے والے ، جماعتوں کو چھوڑنے والے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں ۔ ابو شہب عطا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی آئی کہ اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں ، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہوجاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کر دیتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے مجھے اپنی امت میں دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑ جائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے ، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے ۔ غیا کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی ۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے ۔ ابن جریر میں ہے لقمان بن عامر فرماتے ہیں میں حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں ۔ آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھنکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا ۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا ۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے ۔ غی کا ذکر آیت ( فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59؀ۙ ) 19-مريم:59 ) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت ( وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) میں ہے اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث کی رو سے بھی غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ہاں جو ان کاموں سے توبہ کرلے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گیا اس کی عاقبت سنوار دے گا اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا ، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ ۔ یہ لوگ جو نیکیاں کریں ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہوگا ۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کر دیتا ہے ۔ سورہ فرقان میں گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنا کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور ورحیم ہے ۔