Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنۡ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ وَمِمَّنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ وَّمِنۡ ذُرِّيَّةِ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡرَآءِيۡلَ وَمِمَّنۡ هَدَيۡنَا وَاجۡتَبَيۡنَا‌ ؕ اِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ۩‏ ﴿58﴾
یہی وہ انبیا ءہیں جن پر اللہ تعالٰی نے فضل وکرم کیا جو اولادِ آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نسل سے ہیں جنہیں ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کے ساتھ کشتی میں چڑھا لیا تھا ، اور اولاد ابراہیم و یعقوب سے اور ہماری طرف سے راہ یافتہ اور ہمارے پسندیدہ لوگوں میں سے ۔ ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے اورروتے گڑ گڑاتے گر پڑتے تھے ۔
اولىك الذين انعم الله عليهم من النبين من ذرية ادم و ممن حملنا مع نوح و من ذرية ابرهيم و اسراءيل و ممن هدينا و اجتبينا اذا تتلى عليهم ايت الرحمن خروا سجدا و بكيا
Those were the ones upon whom Allah bestowed favor from among the prophets of the descendants of Adam and of those We carried [in the ship] with Noah, and of the descendants of Abraham and Israel, and of those whom We guided and chose. When the verses of the Most Merciful were recited to them, they fell in prostration and weeping.
Yehi woh anbiya hain jin per Allah Taalaa ney fazal-o-karam kiya jo aulad-e-adam mein say hain aur unn logon ki nasal say hain jinhen hum ney nooh ( alh-e-salam ) kay sath kashti mein charha liya tha aur aulad ibrahim-o-yaqoob say aur humari taraf say raaha yafta aur humaray pasandeedah logon mein say. Inn kay samney jab Allah rehman ki aayaton ki tilawat ki jati thi yeh sajda kertay aur rotay girgiratay gir partay thay.
آدم کی اولاد میں سے یہ وہ نبی ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ، اور ان میں سے کچھ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ ( کشتی میں ) سوار کیا تھا ، اور کچھ ابراہیم اور اسرائیل ( یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد میں سے ہیں ۔ اور یہ سب ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم نے ہدایت دی ، اور ( اپنے دین کے لیے ) منتخب کیا ۔ جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تو یہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے ۔ ( ٢٩ )
یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے میں سے آدم کی اولاد سے ( ف۹۵ ) اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا ( ف۹٦ ) اور ابراہیم ( ف۹۷ ) اور یعقوب کی اولاد سے ( ف۹۸ ) اور ان میں سے جنہیں ہم نے راہ دکھائی اور چن لیا ( ف۹۹ ) جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے ( ف۱۰۰ ) ( السجدة ) ۵
یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد میں سے ، اور ان لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا ، اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کی نسل سے اور اسرائیل ( علیہ السلام ) کی نسل سے ۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے ۔ السجدۃ 5
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے زمرۂ انبیاء میں سے آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں اور ان ( مومنوں ) میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کے ساتھ کشتی میں ( طوفان سے بچا کر ) اٹھا لیا تھا ، اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کی اور اسرائیل ( یعنی یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں اور ان ( منتخب ) لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ بنایا ، جب ان پر ( خدائے ) رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور ( زار و قطار ) روتے ہوئے گر پڑتے ہیں
انبیاء کی جماعت کا ذکر ۔ فرمان الہٰی ہے کہ یہ ہے جماعت انبیاء یعنی جن کا ذکر اس سورت میں ہے یا پہلے گزرا ہے یا بعد میں آئے گا یہ لوگ اللہ کے انعام یافتہ ہیں ۔ پس یہاں شخصیت سے جنس کی طرف استطراد ہے ۔ یہ ہیں اولاد آدم سے یعنی حضرت ادریس صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور اولاد سے ان کی جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کرا دئے گئے تھے اس سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ ہیں ۔ اور ذریت ابراہیم علیہ السلام سے مراد حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب حضرت اسماعیل ہیں اور ذریت اسرائیل سے مراد حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون ، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ہیں علیہم السلام ۔ یہی قول ہے حضرت سدی رحمۃاللہ علیہ اور ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ۔ اسی لئے ان کے نسب جداگانہ بیان فرمائے گئے کہ گو اولاد آدم میں سب ہیں مگر ان میں بعض وہ بھی ہیں جو ان بزرگوں کی نسل سے نہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھی تھے کیونکہ حضرت ادریس تو حضرت نوح علیہ السلام کے دادا تھے ۔ میں کہتا ہوں بظاہر یہی ٹھیک ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے اوپر کے نسب میں اللہ کے پیغمبر حضرت ادریس علیہ السلام ہیں ۔ ہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ادریس بنی اسرائیلی نبی ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ معراج والی حدیث میں حضرت ادریس کا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا مروی ہے کہ مرحبا ہو بنی صالح اور بھائی صالح کو مرحبا ہو ۔ تو بھائی صالح کہا نہ کہ صالح ولد جیسے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت آدم علیہما السلام نے کہا تھا ۔ مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے کے ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ لا الہ الا اللہ کے قائل اور معتقدین بن جاؤ پھر جو چاہو کرو لیکن انہوں نے اس کا انکار کیا اللہ عزوجل نے ان سب کو ہلاک کر دیا ۔ ہم نے اس آیت کو جنس انبیاء کے لئے قرار دیا ہے اس کی دلیل سورہ انعام کی وہ آیتیں ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سیلمان علیہ السلام ، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت الیاس علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت یونس علیہ السلام ، وغیرہ کا ذکر ہے اور تعریف کرنے کے بعد فرمایا ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ۭ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ۭاِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ 90؀ۧ ) 6- الانعام:90 ) یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تو ابھی ان کی ہدایت کی اقتدا کر اور یہ بھی فرمایا ہے کہ نبیوں میں سے بعض کے واقعات ہم نے بیان کر دیے ہیں اور بعض کے واقعات تم تک پہنچے ہی نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت مجاہد رحمۃاللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیا سورہ ص میں سجدہ ہے آپ نے فرمایا ہاں پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اقتدا کا حکم کیا گیا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی مقتدا نبیوں میں سے ہیں ۔ فرمان ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل وبراہین پر خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان مانتے ہوئے روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے اسی لئے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علماء کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہو جائے ۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا پھر فرمایا سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں ؟ ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر )