Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّكَ‌ ۚ لَهٗ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡنَا وَمَا خَلۡفَنَا وَمَا بَيۡنَ ذٰ لِكَ‌ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا‌ ۚ‏ ﴿64﴾
ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں ، تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں ۔
و ما نتنزل الا بامر ربك له ما بين ايدينا و ما خلفنا و ما بين ذلك و ما كان ربك نسيا
[Gabriel said], "And we [angels] descend not except by the order of your Lord. To Him belongs that before us and that behind us and what is in between. And never is your Lord forgetful -
Hum baghair teray rab kay hukum kay utar nahi saktay humaray aagay peechay aur inn kay darmiyan ki kul cheezen ussi ki milkiyat mein hain tera perwerdigar bhoolney wala nahi.
اور ( فرشتے تم سے یہ کہتے ہیں کہ ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر اتر کر نہیں آتے ۔ ( ٣١ ) جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، وہ سب اسی کی ملکیت ہے ۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں ہے جو بھول جایا کرے ۔
۔ ( اور جبریل نے محبوب سے عرض کی ) ( ف ۱۰۹ ) ہم فرشتے نہیں اترتے مگر حضور کے رب کے حکم سے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے ( ف۱۱۰ ) اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں ( ف۱۱۱ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 39 ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترا کرتے ۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے ۔
اور ( جبرائیل میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہو کہ ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر ( زمین پر ) نہیں اتر سکتے ، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ( سب ) اسی کا ہے ، اور آپ کا رب ( آپ کو ) کبھی بھی بھولنے والا نہیں ہے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :39 یہ پورا پیراگراف ایک جملہ معترضہ جو ایک سلسلہ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے ۔ انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورہ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گزر رہے ہیں ۔ حضور کو اور آپ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو ۔ جوں جوں وحی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے ۔ اس حالت میں جبریل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے وہ فرمان سناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکار تھا ۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے اللہ تعالی کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے ، اللہ تعالی کی طرف سے حرف تسلی بھی ، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی ۔ یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابن جریر ، ابن کثیر اور صاحب روح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔
جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر کیوں؟ صحیح بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا آپ جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس کے جواب پر یہ آیت اتری ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں تاخیر ہوگئی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے پھر آپ یہ آیت لے کر نازل ہوئے ۔ روایت ہے کہ بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس گو یہ یہ آیت سورہ والضحی کی آیت جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا میرا شوق تو بہت ہی بےچین کئے ہوئے تھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی ۔ لیکن یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کی وجہ دریافت کی آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں ، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں ، مونچھیں پست نہ کرائیں ، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کر لو آج وہ فرشتہ آرہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا ۔ ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں ۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں ۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ کو اپنی یاد سے فرماموش نہیں کیا ۔ نہ اس کی یہ صفت ۔ جیسے فرمان ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1 ) قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش ۔ ابن ابی حاتم میں ہے آپ فرماتے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جو حرام کر دیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کر لو ، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا ۔ آسمان وزمین اور ساری مخلوق کا خالق مالک مدبر متصرف وہی ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے ۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ اس کے مثیل شبیہ ہم نام پلہ کوئی نہیں ۔ وہ بابرکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ ۔