Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
لِّـلَّذِيۡنَ يُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآٮِٕهِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَةِ اَشۡهُرٍ‌‌ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿226﴾
جو لوگ اپنی بیویوں سے ( تعلق نہ رکھنے کی ) قسمیں کھائیں ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالٰی بھی بخشنے والا مہربان ہے ۔
للذين يؤلون من نساىهم تربص اربعة اشهر فان فاءو فان الله غفور رحيم
For those who swear not to have sexual relations with their wives is a waiting time of four months, but if they return [to normal relations] - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Jo log apni biwiyon say ( talluq na rakhney ) qasmen khayen unn kay liye chaar maheeney ki iddat hai phir agar woh lot aayen to Allah Taalaa bhi bakshney wala meharban hai.
جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلائ کرتے ہیں ( یعنی ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں ) ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ( ١٤٨ ) چنانچہ اگر وہ ( قسم توڑ کر ) رجوع کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اور وہ جو قسم کھا بیٹھتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کی انہیں چار مہینے کی مہلت ہے ، پس اگر اس مدت میں پھر آئے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے 245 ۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا ، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ 246
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ ( اس مدت میں ) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :245 اصطلاح شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں ۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے ۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر رشتہ ازدواج میں تو بندھے رہیں ، مگر عملاً ایک دوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں ۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو ، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں ، اس کے ساتھ نکاح کرلیں ۔ آیت میں چونکہ”قسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قسم کھائی ہو ، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا ، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا ، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدت کے لیے ہو ، اس آیت کا حکم اس صورت پر چسپاں نہ ہوگا ۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئ ہو ، دونوں صورتوں میں ترک تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مدت ہے ۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے ۔ ( بدایۃ المجتہد ، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر ، سن ۱۳۳۹ ھ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اس ترک تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو ۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا ، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں ، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا ۔ لیکن دوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ جسمانی کو منقطع کر دے ، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے ، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :246 بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلق زن و شو قائم کرلیں تو ان پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں ہے ، اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا ۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا ۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترک تعلق کے دوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دوسرے پر کی ہو ، اسے معاف کر دیا جائے گا ۔
ایلاء اور اس کی وضاحت: ایلاء کہتے ہیں قسم کو ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہوگی ، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے ، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی ، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے ، جیسے کہ بخاری صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دے دے ، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے ۔ یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایلاء خاص بیویوں کیلئے ہے ، لونڈیوں کیلئے نہیں ۔ یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے ، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں ، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں ، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا ، اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں ۔ امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے ، یہی اس کا کفارہ ہے ، اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے ، واللہ اعلم ۔