Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ رَبُّنَا الَّذِىۡۤ اَعۡطٰـى كُلَّ شَىۡءٍ خَلۡقَهٗ ثُمَّ هَدٰى‏ ﴿50﴾
جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت ، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔
قال ربنا الذي اعطى كل شيء خلقه ثم هدى
He said, "Our Lord is He who gave each thing its form and then guided [it]."
Jawab diya kay humara rab woh hai jiss ney her aik ko uss ki khas surat shakal inayat farmaee phir raah sujha di.
موسی نے کہا : ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو وہ بناوٹ عطا کی جو اس کے مناسب تھی ، پھر ( اس کی ) رہنمائی بھی فرمائی ۔ ( ٢٠ )
کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق صورت دی ( ف۵۹ ) پھر راہ دکھائی ( ف٦۰ )
موسی ( علیہ السلام ) نے جواب دیا ” ہمارا رب وہ 22 ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی ، پھر اس کو راستہ بتایا ۔ ” 23
۔ ( موسٰی علیہ السلام نے ) فرمایا: ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو ( اس کے لائق ) وجود بخشا پھر ( اس کے حسبِ حال ) اس کی رہنمائی کی
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :22 یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو رب مانتے ہیں ۔ پروردگار ، آقا ، مالک ، حاکم ، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے ۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا رب ہمیں تسلیم نہیں ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :23 یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اسی کے بنانے سے بنی ہے ۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل و صورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے ۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی ۔ انسان ، حیوان ، نباتات ، جمادات ، ہوا ، پانی ، روشنی ، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے ۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو ۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اسی نے سکھایا ہے ۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے ۔ درخت کو پھل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں ، ہادی اور معلم بھی ہے ۔ اس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا رب کون ہے ، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں رب ہے اور کس لیے اس کے سوا کسی اور کو رب نہیں مانا جاسکتا ۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجود خاص کے لیے اللہ کا ممنون احسن ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا رب ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا رب ہے ، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ مزید براں ، اسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کردی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا ۔ ان کی دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے ، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے ، اس کے عالمگیر منصب ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے ۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزوں نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔ اس کی موزوں ترین شکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے ۔