سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :24
یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں ہے ، تو یہ ہم سب کے باپ دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے ؟ کیا وہ سب گمراہ تھے ؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے ؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں ؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا جواب ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں ، یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے ، اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل دربار اور عام اہل مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے ۔ اہل حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کرنے کے لیے بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے ۔ خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے زیادہ اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا ، اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل بر محل تھا ۔