Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰى‏ ﴿51﴾
اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے ۔
قال فما بال القرون الاولى
[Pharaoh] said, "Then what is the case of the former generations?"
Uss ney kaha acha yeh to batao aglay zamaney walon ka haal kiya hona hai.
فرعون بولا : اچھا پھر ان قوموں کا کیا معاملہ ہوا جو پہلے گذر چکی ہیں؟ ( ٢١ )
بولا ( ف٦۱ ) اگلی سنگتوں ( قوموں ) کا کیا حال ہے ( ف٦۲ )
فرعون بولا ” اور پہلے جو نسلیں گزر چکیں ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟ ” 24
۔ ( فرعون نے ) کہا: تو ( ان ) پہلی قوموں کا کیا حال ہوا ( جو تمہارے رب کو نہیں مانتی تھیں )
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :24 یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں ہے ، تو یہ ہم سب کے باپ دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے ؟ کیا وہ سب گمراہ تھے ؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے ؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں ؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا جواب ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں ، یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے ، اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل دربار اور عام اہل مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے ۔ اہل حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کرنے کے لیے بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے ۔ خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے زیادہ اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا ، اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل بر محل تھا ۔