Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ‌ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ‌ ؕ وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌ ۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَى الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰ لِكَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا ‌ؕ وَاِنۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡٓا اَوۡلَادَكُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّآ اٰتَيۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿233﴾
مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے ، پھر اگر دونوں ( یعنی ماں باپ ) اپنی رضامندی اور باہمی مشورے سے دودھ چُھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے ۔
و الوالدت يرضعن اولادهن حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعة و على المولود له رزقهن و كسوتهن بالمعروف لا تكلف نفس الا وسعها لا تضار والدة بولدها و لا مولود له بولده و على الوارث مثل ذلك فان ارادا فصالا عن تراض منهما و تشاور فلا جناح عليهما و ان اردتم ان تسترضعوا اولادكم فلا جناح عليكم اذا سلمتم ما اتيتم بالمعروف و اتقوا الله و اعلموا ان الله بما تعملون بصير
Mothers may breastfeed their children two complete years for whoever wishes to complete the nursing [period]. Upon the father is the mothers' provision and their clothing according to what is acceptable. No person is charged with more than his capacity. No mother should be harmed through her child, and no father through his child. And upon the [father's] heir is [a duty] like that [of the father]. And if they both desire weaning through mutual consent from both of them and consultation, there is no blame upon either of them. And if you wish to have your children nursed by a substitute, there is no blame upon you as long as you give payment according to what is acceptable. And fear Allah and know that Allah is Seeing of what you do.
Mayen apni aulad ko do saal kamil doodh pilayen jin ka irada doodh pilaney ki muddat bilkul poori kerney ka ho aur jin kay bachay hain unn kay zimmay unn ka roti kapra hai jo mutabiq dastoor kay ho. Her shaks utni hi takleef diya jata hai jitni uss ki taqat ho. Maa ko uss kay bachay ki waja say ya baap ko uss ki aulad ki waja say koi zarar na phonchaya jaye waris per bhi issi jaisi zimmay dari hai phir agar dono ( yani maa baap ) apni raza mandi aur bahumi mashwaray say doodh churana chayen to dono per kuch gunah nahi aur agar tumhara irada apni aulad ko doodh pilwaney ka ho to bhi tum per koi gunah nahi jab kay tum unn ko muabiq dastoor kay jo dena ho woh inn kay hawalay ker do Allah Taalaa say dartay raho aur jantay raho kay Allah Taalaa tumharay aemaal ki dekh bhaal ker raha hai.
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں ، یہ مدت ان کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ، اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے ، ( ١٥٤ ) ۔ ( ہاں ) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی ، نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے ، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے ( ١٥٥ ) اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے ( ١٥٦ ) پھر اگر وہ دونوں ( یعنی والدین ) آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے ( دو سال گذرنے سے پہلے ہی ) دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں بھی ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ، اور اگر تم یہ چاہو کہ وپنے بچوں کو کسی انا سے دودھ پلواؤ تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ، جبکہ تم نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ ( دودھ پلانے والی انا کو ) بھلے طریقے سے دے دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے سارے کاموں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے ۔
اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو ( ف٤٦٦ ) پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہئے ( ف٤٦۷ ) اور جس کا بچہ ہے ( ف٤٦۸ ) اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور ( ف٤٦۹ ) کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کے مقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے ( ف٤۷۰ ) اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے ( ف٤۷۱ ) یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو ( ف٤۷۲ ) اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ،
جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّت رضاعت تک دودھ پیے ، تو مائیں اپنے بچّوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں ۔ 257 اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا ۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے ، نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچّہ اس کا ہے ، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچّہ اس کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے 258 ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں ، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو ، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو ، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو ۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے ۔
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ ( حکم ) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے ، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے ، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے ، ( اور ) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے ، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا ، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے ( دو برس سے پہلے ہی ) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو ( دایہ سے ) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :257 یہ اس صورت کا حکم ہے ، جبکہ زوجین ایک دوسرے سے علیحدہ ہو چکے ہوں ، خواہ طلاق کے ذریعے یا خلع یا فسخ اور تفریق کے ذریعے سے ، اور عورت کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :258 یعنی اگر باپ مر جائے ، تو جو اس کی جگہ بچہ کا ولی ہو ، اسے یہ حق ادا کرنا ہوگا ۔
مسئلہ رضاعت: یہاں اللہ تعالیٰ بچوں والیوں کو اشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے ۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس سے دودھ بھائی پنا ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے ۔ اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو ۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹھنے سے پہلے ہو ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے ، اس کے بعد کی نہیں ۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں ۔ حدیث میں فی الثدی کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں ، یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا کہ وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پانے والی جنت میں مقرر ہے ۔ حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی ۔ دار قطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے متعبر نہ ہونے کی ہے ۔ ابن عباس بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں ۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں ۔ خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان:14 ) دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ) 46 ۔ الاحقاف:15 ) یعنی حمل اور دودھ ( دونوں کی مدت ) تین ماہ ہیں ۔ یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ، ان تمام حضرات کا ہے ۔ حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود ، حضرت جابر ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابن عمر ، حضرت اُم سلمہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ، حضرت سعید بن المسیب ، حضرت عطاء اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحق ، امام ثوری ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ گو ایک روایت میں امام مالک سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں ۔ امام ابو حنیفہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں ۔ زفر کہتے ہیں جب تک دودھ نہیں چھٹا تو تین سالوں تک کی مدت ہے ، امام اوزاعی سے بھی یہ روایت ہے ۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہوگی اس لئے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہو گیا ۔ امام اوزاعی سے ایک روایت ہی بھی ہے کہ حضرت عمر ، حضرت علی سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں ۔ اس قول کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا ۔ اس کے بعد جیسے امام مالک کا فرمان ہے ، واللہ اعلم ، ہاں صحیح بخاری ، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کہ ، بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں ۔ عطاء اور لیث کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت عائشہ جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولیٰ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں ، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں ، یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں ، ساتوں فقیہوں ، کل کے کل بڑے صحابہ کرام اور تمام امہات المومنین کا سوائے حضرت عائشہ کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں ، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو ، باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت ( وامھا تکم اللاتی ارضعنکم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ ، پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے ۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں ، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا آیت ( وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ ) 4 ۔ النسآء:23 ) یعنی کشادگی والے اپنی کشادگی کے مطابق اور تنگی والے اپنی طاقت کے مطابق دیں ، اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، عنقریب اللہ تعالیٰ سختی کے بعد آسانی کر دے گا ۔ ضحاک فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لئے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے ۔ دودھ سے جب بچہ بےنیاز ہو جائے تو بیشک بچہ کو دے دے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو ۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دُکھ میں پڑے ۔ وارث کو بھی یہی چاہئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے ، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے ۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے ۔ سمرہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے ، یا تو جسمانی یا دماغی ۔ حضرت علقمہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا ۔ پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہوگی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے ۔ خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا ، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے ۔ سورۃ طلاق میں فرمایا آیت ( فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ) 65 ۔ الطلاق:6 ) اگر عورتیں بچے کو دودھ پلایا کریں تو تم ان کی اجرت بھی دیا کرو اور آپس میں عمدگی کے ساتھ معاملہ رکھو ۔ یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو ، چنانچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دے دے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں ، اب دوسری کسی دایہ سے اُجرت چکا کر دودھ پلوا دیں ۔ لوگو اللہ تعالیٰ سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔