Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ‌‌ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿234﴾
تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالٰی تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے ۔
و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا يتربصن بانفسهن اربعة اشهر و عشرا فاذا بلغن اجلهن فلا جناح عليكم فيما فعلن في انفسهن بالمعروف و الله بما تعملون خبير
And those who are taken in death among you and leave wives behind - they, [the wives, shall] wait four months and ten [days]. And when they have fulfilled their term, then there is no blame upon you for what they do with themselves in an acceptable manner. And Allah is [fully] Acquainted with what you do.
Tum mein say jo log fot ho jayen aur biwiyan chor jayen woh aurten apney aap ko chaar maheeney aur das ( din ) iddat mein rakhen phir jab muddat khatam ker len to jo achai kay sath woh apney liye keren uss mein tum per koi gunah nahi aur Allah Taalaa tumharay her amal say khabardar hai.
اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں ، اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی ، پھر جب وہ اپنی ( عدت کی ) میعاد کو پہنچ جائیں تو وہ اپنے بارے میں جو کاروائی ( مثلا دوسرا نکاح ) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔
اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں ( ف٤۷۳ ) تو جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو اے والیو! تم پر مواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں ، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
تم میں سے جو لوگ مر جائیں ، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں ، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے ، دس دن روکے رکھیں ۔ 259 پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے ، تو انہیں اختیار ہے ، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں ، کریں ۔ تم پر اس کی کوئی ذمّے داری نہیں ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے ۔
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور ( اپنی ) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں ، پھر جب وہ اپنی عدت ( پوری ہونے ) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :259 “یہ عدت وفات ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو ۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے ۔ اس کی عدت وفات وضع حمل تک ہے ، خواہ حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یا اس میں کئی مہینے صرف ہوں ۔ ”اپنے آپ کو روکے رکھیں“ سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مدت میں نکاح نہ کریں ، بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے ۔ چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانہ عدت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے ، مہندی اور سرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے ، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا اس زمانے میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے یا نہیں ۔ حضرات عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، سعید بن مُسَیِّب رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نَخعی ، محمد بن سیرین اور ائمہ اربعہ رحمہمُ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانہ عدت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو ۔ دن کے وقت کسی ضرورت سے وہ باہر جاسکتی ہے ، مگر قیام اس کا اس کا اسی گھر میں ہونا چاہیے ۔ اس کے برعکس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، عطاء ، طاؤس ، حسن بصری ، عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ اور تمام اہل الظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدت کا زمانہ جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے ۔
خاوند کے انتقال کے بعد: اس آیت میں حکم ہو رہا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چار مہینے دس دن عدت گزاریں خواہ اس سے مجامعت ہو یا نہ ہوئی ہو ، اس پر اجماع ہے دلیل اس کی ایک تو اس آیت کا عموم دوسرے یہ حدیث جو مسند احمد اور سنن میں ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ اس سے مجامعت نہیں کی تھی نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا ، فرمائیے اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے جب وہ کئی مرتبہ آئے گئے تو آپ نے فرمایا میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں ، اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو ، اللہ اور رسول اس سے بری ہیں ۔ میرا فتویٰ یہ ہے کہ اس عورت کو پورا مہر ملے گا جو اس کے خاندان کا دستور ہو ، اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور اس عورت کو پوری عدت گزارنی چاہئے اور اسے ورثہ بھی ملے گا ۔ یہ سن کر حضرت معقل بن یسار اسجعی کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے بروع بنت واشق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا ۔ حضرت عبداللہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اشجع کے بہت سے لوگوں نے یہ روایت بیان کی ، ہاں جو عورت اپنے خاوند کی وفات کے وقت حمل سے ہو اس کیلئے یہ عدت نہیں ، اس کی عدت وضع حمل ہے ۔ گو ، انتقال کی ایک ساعت کے بعد ہی ہو جائے ۔ قرآن میں ہے آیت ( وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ) 65 ۔ الطلاق:1 ) حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے ۔ ہاں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وضع حمل اور چار مہینے دس دن میں جو دیر کی عدت ہو وہ حاملہ کی عدت ہے ، یہ قول تو بہت اچھا ہے اور دونوں آیتوں میں اس سے تطبیق بھی عمدہ طور پر ہو جاتی ہے لیکن اس کیخلاف بخاری و مسلم کی ایک صاف اور صریح حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ حضرت سبیعہ اسلیمہ کے خاوند کا جب انتقال ہوا ، اس وقت آپ حمل سے تھیں اور چند راتیں گزار پائی تھیں تو بچہ تولد ہوا ، جب نہا دھو چکیں تو لباس وغیرہ اچھا پن لیا ، حضرت ابو السنابل بن بعلبک نے یہ دیکھ کر فرمایا کیا تم نکاح کرنا چاہتی ہو؟ اللہ کی قسم جب تک چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح نہیں کر سکتیں ۔ حضرت سیعہ یہ سن کر خاموش ہو گئیں اور شام کو خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب بچہ ہو گیا اسی وقت تم عدت سے نکل گئیں ، اب اگر تم چاہو تو بیشک نکاح کر سکتی ہو ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ کو اس حدیث کا علم ہوا تو آپ نے بھی اپنے قول سے رجوع کر لیا ، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عبداللہ کے ساتھی شاگرد بھی اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ اسی طرح لونڈی کی عدت بھی اتنی نہیں ، اس کی عدت اس سے آدھی ہے یعنی دو مہینے اور پانچ راتیں ، جمہور کا مذہب یہی ہے جس طرح لونڈی کی حد بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی ہے اسی طرح عدت بھی ۔ محمد بن سیرین اور بعض علماء ظاہر یہ لونڈی کی اور آزاد عورت کی عدت میں برابری کے قائل ہیں ۔ ان کی دلیل ایک تو اس آیت کا عموم ہے ، دوسرے یہ کہ عدت ایک جلی امر ہے جس میں تمام عورتیں یکساں ہیں ۔ حضرت سعید ابن مسیب ابو العالیہ وغیرہ فرماتے ہیں اس عدت میں حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کو حمل ہوگا تو اس مدت میں بالکل ظاہر ہو جائے گا ۔ حضرت ابن مسعود کی بخاری و مسلم والی مرفوع حدیث میں ہے کہ انسان کی پیدائش کا یہ حال ہے کہ چالیس دن تک تو رحمِ مادر میں نطفہ کی شکل میں ہوتا ہے ، پھر خون بستہ کی شکل چالیس دن تک رہتی ہے پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے ۔ تو یہ ایک سو بیس دن ہوئے جس کے چار مہینے ہوئے ، دس دن احتیاطاً اور رکھ دے کیونکہ بعض مہینے انتیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور جب روح پھونک دی گئی تو اب بچہ کی حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور حمل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اس لئے اتنی عدت مقرر کی گئی واللہ اعلم ۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں دس دن اس لئے ہیں کہ روح انہی دس دِنوں میں پھونکی جاتی ہے ۔ ربیع بن انس بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت امام احمد سے ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے تا کہ جس لونڈی سے بچہ ہو جائے اس کی عدت بھی آزاد عورت کے برابر ہے اس لئے کہ وہ فراش بن گئی اور اس لئے بھی کہ مسند احمد میں حدیث ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا لوگو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر خلط ملط نہ کرو ۔ اولاد والی لونڈی کی عدت جبکہ اس کا سردار فوت ہو جائے چار مہینے اور دس دن ہیں ۔ یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی ابو داؤد میں مروی ہے ۔ امام احمد اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ایک راوی قبیصیہ نے اپنے استاد عمر سے یہ روایت نہیں سنی ۔ حضرت سعید بن مسیب مجاہد ، سعید بن جبیر ، حسن بن سیرین ، ابن عیاض زہری اور عمرو بن عبدالعزیز کا یہی قول ہے ۔ یزید بن عبدالملک بن مروان جو امیرالمومنین تھے ، یہی حکم دیتے تھے ۔ اوزاعی ، اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل بھی ایک روایت میں یہی فرماتے ہیں لیکن طاؤس اور قتادہ اس کی عدت بھی آدھی بتلاتے ہیں یعنی دو ماہ پانچ راتیں ۔ ابو حنیفہ ان کے ساتھ حسن بن صالح بن حی فرماتے ہیں میں حیض عدت گزارے ، حضرت علی ابن مسعود ، عطاء اور ابراہیم نخعی کا قول بھی یہی ہے ۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد کی مشہور روایت یہ ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہی ہے ۔ ابن عمر ، شعبی ، مکحول ، لیث ، ابو عبید ، ابو ثور اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ حضرت لیث فرماتے ہیں کہ اگر حیض کی حالت میں اس کا سید فوت ہوا ہے تو اسی حیض کا ختم ہو جانا اس کی عدت کا ختم ہو جانا ہے ۔ امام مالک فرماتے ہیں اگر حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے عدت گزارے ۔ امام شافعی اور جمہور فرماتے ہیں ایک مہینہ اور تین دن مجھے زیادہ پسند ہیں واللہ اعلم ( مترجم کے نزدیک قوی قول پہلا ہے یعنی مثل آزاد عورت کے پوری عدت گزارے ۔ واللہ اعلم ) بعد ازاں جو ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوگ واجب ہے ۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ جو عورت اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگواری کرنا حرام ہے ، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن سوگوار ہے ۔ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری بیٹی کا میاں مر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دُکھ رہی ہیں ، کیا میں اس کے سرمہ لگا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، دو تین مرتبہ اس نے اپنا سوال دہرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا ، آخری بار فرمایا یہ تو چار مہینے اور دس دن ہی ہیں ، جاہلیت میں تو تم سال سال بھر بیٹھی رہا کرتی تھیں ۔ حضرت زینب بنت اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ پہلے جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تھا تو اسے کسی جھونپڑے میں ڈال دیتے تھے ، وہ بدترین کپڑے پہنتی ، خوشبو وغیرہ سے الگ رہتی اور سال بھر تک ایسی ہی سڑی بھسی رہتی تھی ، سال بھر کے بعد نکلتی اور اونٹنی کی مینگنی لے کر پھینکتی اور کسی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا پرندے کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑتی ، بسا اوقات وہ مر ہی جاتا ، یہ تھی جاہلیت کی رسم ۔ پس یہ آیت اس کے بعد کی آیت کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ ایسی عورتیں سال بھر تک رکی رہیں ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ یہی فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے اور تفصیل اس کی عنقریب آئے گی انشاء اللہ ، مطلب یہ کہ اس زمانہ میں بیوہ عورت کو زینت اور خوشبو اور بہت بھڑکیلے کپڑے اور زیور وغیرہ پہننا منع ہے اور یہ سوگواری واجب ہے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں یہ واجب نہیں ، اور جب طلاق بائن ہو تو وجوب اور عدم وجوب کے دونوں قول ہیں ، فوت شدہ خاوندوں کی زندہ بیویوں پر تو سب پر یہ سوگواری واجب ہے ، خواہ وہ نابالغہ ہوں خواہ وہ عورتیں ہوں جو حیض وغیرہ سے اتر چکی ہوں ، خواہ آزاد عورتیں ہوں خواہ لونڈیاں ہوں ، خواہ مسلمان ہوں خواہ کافرہ ہوں کیونکہ آیت میں عام حکم ہے ، ہاں ثوری اور ابو حنیفہ کافرہ عورت کی سوگواری کے قائل نہیں ، شہاب اور ابن نافع کا قول بھی یہی ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حکم تعبدی ہے ، امام ابو حنیفہ اور ثوری کمسن نابالغہ عورت کیلئے بھی یہی فرماتے ہیں کیونکہ وہ غیر مکلفہ ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب مسلمان لونڈی کو اس میں ملاتے ہیں لیکن اس مسائل کی تصفیہ کا یہ موقع نہیں واللہ الموفق بالصواب پھر فرمایا جب ان کی عدت گزر چکے تو ان کے اولیاء پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کریں یا نکاح کریں ، یہ سب ان کیلئے حلال طیب ہے ۔ حسن ، زہری اور سدی سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔