Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ اَجِئۡتَنَا لِتُخۡرِجَنَا مِنۡ اَرۡضِنَا بِسِحۡرِكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿57﴾
کہنے لگا اے موسٰی! کیا تو اسی لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے ۔
قال اجتنا لتخرجنا من ارضنا بسحرك يموسى
He said, "Have you come to us to drive us out of our land with your magic, O Moses?
Kehney laga aey musa! Kiya tu iss liye aaya hai kay humen apnay jadoo kay zor say humaray mulk say bahir nikal dey.
کہنے لگا : موسیٰ ! کیا تم اس لیے آئے ہو کہ اپنے جادو کے ذریعے ہمیں اپنی زمین سے نکال باہر کرو؟
بولا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے سبب ہماری زمین سے نکال دو اے موسیٰ ( ف۷۳ )
کہنے لگا ” اے موسی ( علیہ السلام ) ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ 30
اس نے کہا: اے موسٰی! کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ تم اپنے جادو کے ذریعہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :30 جادو سے مراد عصا اور ید بیضا کا معجزہ ہے جو سورہ اعراف اور سورہ شعراء کی تفصیلات کے موجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا ۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بد حواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اسی فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’ تو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے پھرتے تھے ۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تو جادوگر ہے ، اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے ، کھلی ہوئی بد حواسی کی علامت ہے ، دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلل تقریر ، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار ، بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ذرا دیکھو ، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھہراتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ہوشیار ہو جاؤ ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے ، اقتدار کا بھوکا ہے ، چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے ۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن ، جلد دوم کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں ، الاعراف حواشی 87 ، 88 ، 89 ۔ یونس ، حاشیہ 75 ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسر اقتدار لوگوں نے داعیان حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں ۔ اس کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت 110 ، 123 ۔ یونس ، آیت 78 ۔ المومنون ، آیت 24 ۔
فرعون کے ساحر اور موسیٰ علیہ السلام ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ لکڑی کا سانپ بن جانا ، ہاتھ کا روشن ہو جانا وغیرہ دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے ۔ تو مغرور نہ ہو جا ہم بھی اس جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ دن اور جگہ مقرر ہو جائے اور مقابلہ ہو جائے ۔ ہم بھی اس دن اس جگہ آ جائیں اور تو بھی ایسا نہ ہو کہ کوئی نہ آئے ۔ کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے منظور ہے اور میرے خیال سے تو اس کے لئے تمہاری عید کا دن مناسب ہے ۔ کیونکہ وہ فرصت کا دن ہوتا ہے سب آ جائیں گے اور دیکھ کر حق و باطل میں تمیز کرلیں گے ۔ معجزے اور جادو کا فرق سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ وقت دن چڑھے کا رکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ میدان میں آئے سب دیکھ سکیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی زینت اور عید کا دن عاشورے کا دن تھا ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہ السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے ۔ اسی لئے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے مہلت چاہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انکار کیا اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی ۔