Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَاُلۡقِىَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوۡنَ وَمُوۡسٰى‏ ﴿70﴾
اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ ( علیہما السلام ) کے رب پر ایمان لائے ۔
فالقي السحرة سجدا قالوا امنا برب هرون و موسى
So the magicians fell down in prostration. They said, "We have believed in the Lord of Aaron and Moses."
Abb to tamam jadoogar sajday mein girr paray aur pukar uthay kay hum to haroon ( alh-e-salam ) aur musa ( alh-e-salam ) kay rab per eman laye.
چنانچہ ( یہی ہوا اور ) سارے جادوگر سجدے میں گرا دیے گئے ۔ ( ٢٥ ) کہنے لگے کہ : ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے ۔
تو سب جادوگر سجدے میں گرالیے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے ( ف۹۰ ) ( ۷۱ ) فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ، بیشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ( ف۹۱ ) تو مجھے قسم ہے ضرور میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا ( ف۹۲ ) اور تمہیں کھجور کے ڈھنڈ ( تنے ) پر سُولی چڑھاؤں گا ، اور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے ( ف۹۳ )
آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادو گر سجدے میں گرا دیے گئے 43 اور پکار اٹھے ” مان لیا ہم نے ہارون ( علیہ السلام ) اور موسی ( علیہ السلام ) کے رب کو ۔ ” 44
۔ ( پھر ایسا ہی ہوا ) پس سارے جادوگر سجدہ میں گر پڑے کہنے لگے: ہم ہارون اور موسٰی ( علیہما السلام ) کے رب پر ایمان لے آئے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :43 یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے ، ان کے فن کی چیز ہرگز نہیں ہے ، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے میں گرے جیسے کسی نے اٹھا اٹھا کر ان کو گرا دیا ہو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :44 اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے ۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے ۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالق زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسر عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے ۔ بالفاظ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگر اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے ، اور امتحان اس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قسم سے ہے یا اس معجزے کی قسم سے جو رب العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہ وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ، بلکہ انہیں فوراً یقین آ گیا کہ موسیٰ واقعی اللہ رب العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم اس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے ، اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہوا ہو گا ۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اس امید پر کرایا تھا کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سے سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے ، ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے ، تو موسیٰ کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اسی پر الٹ پڑی ، اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ انکے فن کی چیز نہیں ہے ، یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے ۔