Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
يٰبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ قَدۡ اَنۡجَيۡنٰكُمۡ مِّنۡ عَدُوِّكُمۡ وَوٰعَدۡنٰكُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَيۡمَنَ وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكُمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰى‏ ﴿80﴾
اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں طرف کا وعدہ اور تم پر من و سلویٰ اتارا ۔
يبني اسراءيل قد انجينكم من عدوكم و وعدنكم جانب الطور الايمن و نزلنا عليكم المن و السلوى
O Children of Israel, We delivered you from your enemy, and We made an appointment with you at the right side of the mount, and We sent down to you manna and quails,
Aey bani israeel! Dekho hum ney tumhen tumharay dushman say nijat di aur tum say koh-e-toor ki dayen taraf ka wada kiya aur tum per mann-o-salwa utara.
اے بنی اسرائیل ! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی ، اور تم سے کوہ طور کے دائیں جانب آنے کا وعدہ ٹھہرایا ، اور تم پر من و سلوی نازل کیا ۔
اے بنی اسرائیل بیشک ہم نے تم کو تمہارے دشمن ( ف۱۱۲ ) سے نجات دی اور تمہیں طور کی داہنی طرف کا وعدہ دیا ( ف۱۱۳ ) اور تم پر من اور سلوی ٰ اتارا ( ف۱۱٤ )
56 اے بنی اسرائیل ، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی ، اور طور کے دائیں جانب 57 تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا 58 اور تم پر من و سلوی اتارا 59 ۔ ۔ ۔ ۔
اے بنی اسرائیل! ( دیکھو ) بیشک ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات بخشی اور ہم نے تم سے ( کوہِ ) طور کی داہنی جانب ( آنے کا ) وعدہ کیا اور ( وہاں ) ہم نے تم پر من و سلوٰی اتارا
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :56 سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے ۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع 16 ۔ 17 میں گزر چکی ہیں ۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن ۔ جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 98 ) سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :57 یعنی طور کے مشرقی دامن میں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :58 سورہ بقرہ رکوع 6 ، اور سورہ اعراف رکوع 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :59 من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرہ ، حاشیہ 73 ۔ الاعراف ، حاشیہ 118 ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی ، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا ، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا ( خروج ، باب 16 ۔ گنتی باب 11 ، آیت 7 ۔ 9 ۔ یشوع ، باب 5 ، آیت 12 ) کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا ۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز ، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں ، زمین پر پڑی ہے ۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے ( باب 16 ۔ آیت 13 ۔ 15 ) ۔ اور بنی اسرائیل نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا ( آیت 31 ) ۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے ؟ لوگ ادھر ادھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے ۔ پھر اسے ہانڈیوں میں ابال کر روٹیاں بناتے تھے ۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا ۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ من بھی گرتا تھا اب 11 ۔ آیت 8 ۔ 9 ) یہ بھی ایک معجزہ تھا ۔ کیونکہ 40 برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے ، نہ من ہی کہیں پایا جاتا ہے ۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے ان علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے 40 سال تک دشت نوردی کی تھی ۔ من ان کو کہیں نہ ملا ۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے من کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں ۔
احسانات کی یاد دہانی ۔ اللہ تبارک وتعالی نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے احسان کئے تھے انہیں یاددلارہا ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انہیں ان کے دشمن سے نجات دی ۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ۔ ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا جیسے فرمان ہے ( واغرقنا ال فرعون وانتم تنظرون ) ۔ یعنی ہم نے تمہارے دیکھتے ہوئے فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے کے یہودیوں کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا انہوں نے جواب دیا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر کامیاب کیا تھا ۔ آپ نے فرمایا پھر توہمیں بہ نسبت تمہارے ان سے زیادہ قرب ہے چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو کوہ طور کی دائیں جانب کا وعدہ دیا ۔ آپ وہاں گئے اور پیچھے سے بنو اسرائیل نے گوسالہ پرستی شروع کردی ۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ من وسلوی کھانے کو دیا اس کا پورا بیان سورۃ بقرۃ وغیرہ کی تفیسر میں گزر چکا ہے من ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لئے آسمان سے اترتی تھی اور سلوی ایک قسم کے پرند تھے جو بہ حکم خداوندی ان کے سامنے آجاتے تھے یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انہیں لے لیتے تھے ۔ ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ اس میں حد سے نہ گزر جاؤ حرام چیزیا حرام ذریعہ سے اسے نہ طلب کرو ۔ ورنہ میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب اترے یقین مانو کہ وہ بدبخت ہو گیا ۔ حضرت شغی بن مانع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہنم میں ایک اونچی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں کافر کو جہنم میں گرایا جاتا ہے تو زنجیروں کی جگہ تک چالیس سال میں پہنچتا ہے یہی مطلب اس آیت کاہے کہ وہ گڑھے میں گر پڑا ۔ ہاں جو بھی اپنے گناہوں سے میرے سامنے توبہ کرے میں اس کی توبہ قبول کرتا ہوں ۔ دیکھو بنی اسرائیل میں سے جہنوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ۔ غرض جس کفر و شرک گناہ و معصیت پر کوئی ہو پھر وہ اسے بخوف الہی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے ہاں دل میں ایمان اور اعمال صالحہ بھی کرتا ہو اور ہو بھی راہ راست پر ۔ شکی نہ ہو سنت رسول اور جماعت صحابہ کی روش پر ہو اس میں ثواب جانتا ہو یہاں پر ثم کا لفظ خبر کی خبر پر ترتیب کرنے کے لئے آیا ہے جیسے فرمان ( ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ 17؀ۭ ) 90- البلد:17 )