پھر اس نے لوگوں کے لئے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت ، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے اور موسیٰ کا بھی ۔ لیکن موسیٰ بھول گیا ہے ۔
Phir uss ney logon kay liye aik bachra nikal khara kiya yaani bachray ka butt jiss ki gaye ki si awaz bhi thi phir kehney lagay kay yehi tumhara bhi mabood hai aur musa ka bhi lekin musa bhool gaya hai.
اور لوگوں کے سامنے ایک بچھڑا بنا کر نکال لایا ، ایک جسم تھا جس میں سے آواز نکلتی تھی ۔ لوگ کہنے لگے کہ : یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے ، مگر موسیٰ بھول گئے ہیں ۔
68 پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ لوگ پکار اٹھے ” یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کا خدا اور موسیٰ ( علیہ السلام ) اسے بھول گیا ۔ ”
پھر اس ( سامری ) نے ان کے لئے ( ان گلے ہوئے زیورات سے ) ایک بچھڑے کا قالب ( تیار کرکے ) نکال لیا اس میں ( سے ) گائے کی سی آواز ( نکلتی ) تھی تو انہوں نے کہا: یہ تمہارا معبود ہے اور موسٰی ( علیہ السلام ) کا ( بھی یہی ) معبود ہے بس وہ ( سامری یہاں پر ) بھول گیا
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :68
یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پو غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب پھینک دیا تھا پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے ۔ اس سے صورت واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بے خبر ، اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کرتے چلے گئے ، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے ۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی ، اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ اس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں ، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے ۔