Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَـفۡنَا مَوۡعِدَكَ بِمَلۡكِنَا وَلٰـكِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِيۡنَةِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلۡقَى السَّامِرِىُّ ۙ‏ ﴿87﴾
انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کا خلاف نہیں کیا بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے ، انہیں ہم نے ڈال دیا ، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے ۔
قالوا ما اخلفنا موعدك بملكنا و لكنا حملنا اوزارا من زينة القوم فقذفنها فكذلك القى السامري
They said, "We did not break our promise to you by our will, but we were made to carry burdens from the ornaments of the people [of Pharaoh], so we threw them [into the fire], and thus did the Samiri throw."
Unhon ney jawab diya kay hum ney apney ikhtiyar say aap kay sath waday ka khilaf nahi kiya. Bulkay hum per zewraat qom kay bojh laad diye gaye thay unhen hum ney daal diya aur issi tarah samri ney bhi daal diye.
کہنے لگے : ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی ، بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر لوگوں کے زیورات کے بوجھ لدے ہوئے تھے ، اس لیے ہم نے انہیں پھینک دیا ۔ ( ٣٥ ) پھر اسی طرح سامری نے کچھ ڈالا ( ٣٦ )
بولے ہم نے آپ کا وعدہ اپنے اختیار سے خلاف نہ کیا لیکن ہم سے کچھ بوجھ اٹھوائے گئے اس قوم کے گہنے کے ( ف۱۲۷ ) تو ہم نے انھیں ( ف۱۲۸ ) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈالا ( ۱۲۹ )
انہوں نے جواب دیا ” ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی ، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا ” 67 ۔ ۔ ۔ ۔
وہ بولے: ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کی مگر ( ہوا یہ کہ ) قوم کے زیورات کے بھاری بوجھ ہم پر لاد دیئے گئے تھے تو ہم نے انہیں ( آگ میں ) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ( بھی ) ڈال دیئے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :67 یہ ان لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے ۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی ، نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے ۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم نے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے ، اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری زیورات پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم پر بار ہو گئے تھے ۔ اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں ۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے تھے اور اس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ہجرت کے لیے چل کھڑا ہوا تھا ۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو ، بلکہ یہ کار خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا ، اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی ۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہوتا ہے : خدا نے موسیٰ سے کہا ............................ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور ان کو کہہ ................ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی ۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے ۔ ( باب 3 ۔ آیت 14 تا 22 ) اور خداوند نے موسیٰ سے کہا ........... سو اب تو لوگوں کے کان میں یہ بات ڈال دے کہ ان میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے ، اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا ( باب 11 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے ان لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزت بخشی کہ جو کچھ انہوں نے مانگا انہوں نے دیا ، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا ۔ ( باب 12 ۔ آیت 35 ۔ 36 ) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اسی لوٹ کا بوجھ تھا ۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں ، اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے ، پھر ان کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے ، تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لاد کر چلا جاسکے ۔ چنانچہ اس قرارداد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا ۔