Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَرَجَعَ مُوۡسَىٰۤ اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا  ۙ قَالَ يٰقَوۡمِ اَلَمۡ يَعِدۡكُمۡ رَبُّكُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا  ۙ اَفَطَالَ عَلَيۡكُمُ الۡعَهۡدُ اَمۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ يَّحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِىْ‏ ﴿86﴾
پس موسیٰ ( علیہ السلام ) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے ، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا ۔
فرجع موسى الى قومه غضبان اسفا قال يقوم الم يعدكم ربكم وعدا حسنا افطال عليكم العهد ام اردتم ان يحل عليكم غضب من ربكم فاخلفتم موعدي
So Moses returned to his people, angry and grieved. He said, "O my people, did your Lord not make you a good promise? Then, was the time [of its fulfillment] too long for you, or did you wish that wrath from your Lord descend upon you, so you broke your promise [of obedience] to me?"
Pus musa ( alh-e-salam ) sakht ghazab naak hoker ranj kay sath wapis lotay aur kehnay lagay kay aey meri qom walo! Kiya tum say tumharay perwerdigar ney nek wada nahi kiya tha? Kiya iss ki muddat tumhen lambi maloom hui? Bulkay tumhara irada hi yeh hai kay tum per tumharay perwerdigar ka ghazab nazil ho? Kay tum ney meray waday ka khilaf kiya.
چنانچہ موسیٰ غم و غصے میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس لوٹے ۔ کہنے لگے : میری قوم کے لوگو ! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ ( ٣٣ ) تو کیا تم پر کوئی بہت لمبی مدت گذر گئی تھی ، ( ٣٤ ) یا تم چاہتے ہی یہ تھے کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہوجائے ، اور اس وجہ سے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟
تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا ( ف۱۲۳ ) غصہ میں بھرا افسوس کرتا ( ف۱۲٤ ) کہا اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہ تھا ( ف۱۲۵ ) کیا تم پر مدت لمبی گزری یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے تو تم نے میرا وعدہ خلاف کیا ( ف۱۲٦ )
موسی ( علیہ السلام ) سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا ۔ جا کر اس نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو ، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ 64 کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ 65 یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟ ” 66
پس موسٰی ( علیہ السلام ) اپنی قوم کی طرف سخت غضبناک ( اور ) رنجیدہ ہوکر پلٹ گئے ( اور ) فرمایا: اے میری قوم! کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں فرمایا تھا ، کیا تم پر وعدہ ( کے پورے ہونے ) میں طویل مدت گزر گئی تھی ، کیا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے غضب واجب ( اور نازل ) ہوجائے؟ پس تم نے میرے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :64 اچھا وعدہ نہیں کیا تھا بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں ۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا ، غلامی سے نجات دی ، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا ، تمہارے لیے ان صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا ۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا ؟ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :65 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے ؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے ، کیا ان کو کچھ بہت زیادہ مدت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے ؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سرمست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :66 اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے ۔ اس کے اتباع کا وعدہ ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ ۔