Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَـنَّا قَوۡمَكَ مِنۡۢ بَعۡدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ‏ ﴿85﴾
فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے ۔
قال فانا قد فتنا قومك من بعدك و اضلهم السامري
[ Allah ] said, "But indeed, We have tried your people after you [departed], and the Samiri has led them astray."
Farmaya! Hum ney teri qom ko teray peechay aazmaeesh mein daal diya aur unhen samri ney behka diya.
اللہ نے فرمایا : پھر تمہارے آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کو فتنے میں مبتلا کردیا ہے ، اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے ۔ ( ٣٢ )
فرمایا ، تو ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم ( ف۱۲۱ ) بلا میں ڈالا اور انھیں سامری نے گمراہ کردیا ، ( ف۱۲۲ )
فرمایا ” اچھا ، تو سنو ، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری 63 نے انہیں گمراہ کر ڈالا ۔ ”
ارشاد ہوا: بیشک ہم نے تمہارے ( آنے کے ) بعد تمہاری قوم کو فتنہ میں مبتلا کر دیا ہے اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :63 یہ اس شخص کا نام نہیں ہے ، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے ، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف ۔ پھر قرآن جس طرح السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی ۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے ۔ لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں ، اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیر کی حد کر دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ، معاذ اللہ ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے ، اس لیے کہ دولت اسرائیل کا دارالسلطنت سامریہ اس واقعہ کے کئی صدی بعد 965 ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا ، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے سامریوں کے نام سے شہرت پائی ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا ، اور یہودیوں کے ذریعہ سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس بات کی سن گن پالی ہو گی ، اس لئے انہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا ۔ اسی طرح کی باتیں ان لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسویرس ( شاہ ایران ) کے درباری امیر ہامان سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ شاید ان مدعیان علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا ۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی ، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے ، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں ۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ دولت اسرائیل کے فرمانروا عمری نے ایک شخص سمر نامی سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا ۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا ( سلاطین 1 ، بابا 16 ۔ آیت 24 ) ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے سمر نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری ، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا ۔